• news

الطاف کے قا ئداعظمؒ کے بارے میں ریمارکس قابل مذمت ہیں: سیاسی و دینی رہنما

اسلام آباد+لاہور(محمد نواز رضا+وقائع نگار خصوصی+ خصوصی رپورٹر+ خصوصی نامہ نگار) پاکستان مسلم لیگ ن اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں نے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے قائداعظمؒ کے پاسپورٹ کے حوالے سے ریمارکس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان رہنماﺅں نے قائداعظمؒ کی دوہری شہریت کے حوالے سے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے سفید جھوٹ قرار دیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے چیئرمین سینیٹر راجہ محمد ظفرالحق نے کہا کہ الطاف حسین کا اپنی دوہری شہریت کے حوالے سے بانی¿ پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کے محسن حضرت قائداعظمؒ کے خلاف ریمارکس چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے وہ نہ تو تاریخی حقائق سے واقف ہیں نہ ہی اس تقابل کا کوئی جواز تھا۔ حضرت قائداعظمؒ اور خواجہ ناظم الدین کا نام اس صورت میں لیا جا سکتا تھا کہ ان کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ ہوتے ہوئے وہ برطانیہ ہالینڈ کا پاسپورٹ حاصل کرتے، قائداعظمؒ نے انگریزوں اور کانگریس کا مقابلہ کرکے اسی دور اندیشی مستقل مزاجی اور شک و شبہ سے بالاتر کردار کے باعث آزادی حاصل کی اور برصغیر میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔ قائداعظمؒ نے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن سے ملنے سے انکار کردیا تھا اور وہ کراچی پہنچ کر کراچی ایئرپورٹ ان سے ملاقات کی اجازت کا انتظار کرتا رہا لیکن قائداعظم نے اس کے کردار کے پیش نظر اپنے ملٹری سیکرٹری کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ قائداعظم اس سے ملنے کیلئے تیار نہ تھے قائداعظم جیسی مضبوط کردار کی مالک شخصیت اس سارے دور میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا اس وقت جو کھیل کھیلا جا رہا ہے حکومت اس کے تدارک کی اہلیت نہیں رکھتی۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ الطاف حسین بانی پاکستان قائداعظم کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔ قائداعظم پوری قوم کے متفقہ رہنما ہیں۔ الطاف حسین نے آسمان کی طرف تھوکا ہے جو ان کے منہ پر آیا ہے وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے ذریعے طاہر القادری پر ڈرون حملہ کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ الطاف حسین نے حقائق مسخ کرکے بیان کئے قائداعظمؒ کے بارے میں ان کی گفتگو کروڑوں پاکستانیوں کے لئے دل آزاری کا سبب بنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ جب تعلیم حاصل کرنے کیلئے برطانیہ تشریف لے گئے تھے اس وقت پاکستان کا وجود ہی عمل میں نہیں آیا تھا لہٰذا یہ کہنا کہ قائداعظم نے برطانوی شہریت اختیار کی تھی، انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ الطاف حسین نے نوازشریف کے حوالے سے بھی حقائق توڑ موڑ کر بیان کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف اپنی مرضی سے سعودی عرب نہیں گئے تھے بلکہ انہیں ڈکٹیٹر مشرف نے جبراً جلاوطن کیا تھا۔ الطاف حسین کو بھی بتانا چاہئے تھا کہ جلاوطنی کے پورے عرصے کے دوران نوازشریف اور شہبازشریف نے پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت حاصل نہیں کی اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ استعمال کیا۔ عوام قائداعظمؒ کے تاقیامت احسان مند رہیں گے۔ الطاف حسین نے 18 کروڑ عوام کی دل آزاری کی، الطاف حسین قائداعظمؒ کے بارے میں کہے گئے اپنے الفاظ واپس لیں اور قوم سے معافی مانگیں۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اللہ خاں نے کہا کہ الطاف بھائی حقائق کو مسخ کر رہے ہیں قائداعظمؒ کے جس پاسپورٹ کا حوالہ انہوں نے دیا ہے وہ پاکستان کے قیام سے پہلے بنوایا گیا تھا جب برصغیر پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ اس میں دوہری شہریت کہاں سے آگئی۔ مسلم لیگ ہمخیال کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل چودھری ناصر محمود ایڈووکیٹ نے کہا کہ قائداعظمؒ نے 1940ءمیں برطانیہ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر بنایا جانا قبول نہیں کیا تھا۔ بھارت والوں نے بھی ملکہ برطانیہ کا حلف اٹھایا تھا لیکن ان کے ارکان پارلیمنٹ کی دوہری شہریت نہیں تھی۔ الطاف بھائی حقائق مسخ نہ کریں۔ مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی سینئر نائب صدر سلطان محمود خاں ایڈووکیٹ نے کہا کہ قائداعظمؒ نے کبھی برطانیہ کی شہریت حاصل نہیں کی تھی۔ الطاف حسین کو سفید جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ ق کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ الطاف بھائی کو غلطی لگی قائداعظمؒ کی دوہری شہریت نہیں تھی بلکہ وہ اس وقت کے ہندوستان کے شہری تھے جہاں تک ان کے پاسپورٹ کا تعلق ہے وہ برصغیر میں برطانوی حکومت ہونے کے باعث ان کی جانب سے جاری کیا گیا۔ جمعیت علماءپاکستان کے سینئر نائب صدر مرکزی جماعت اہلسنّت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی نے کہا کہ بانی پاکستان کو ہمیشہ برطانوی شہری نے متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ قائد اعظمؒ لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں اس طرح کے فرسودہ خیالات پیش کر کے ان کو متنازعہ نہیں بنایا جا سکتا، قائد اعظم ؒ کے بارے میں ہرزہ سرائی ناقابل برادشت ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ الطاف حسین کا اپنے سٹیٹس کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کے حلف کے ساتھ موازنہ کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ 1947ءمیں پاکستان کو مکمل آزادی نہیں ملی تھی اسی لئے قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر کی بجائے گورنر جنرل بنے۔ قائداعظمؒ کا موجودہ حالات سے مماثلت کرنا کسی صورت بھی درست نہیں۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ الطاف حسین کو بتانا چاہئے کہ ان کی جان کو کس سے خطرہ ہے؟ اور ان کی وطن واپسی میں کیا امر مانع ہے۔ اپنے برطانوی پاسپورٹ کے دفاع میں قائداعظم کے پاسپورٹ کو مثال بنانا کہاں کی حب الوطنی اور اپنی جلا وطنی کو شعب ابی طالب کے ساتھ ملا کر کہاں کی اسلام پسندی ہے؟۔ شیخوپورہ نامہ نگار خصوصی کے مطابق مسلم لیگ ن کے ایم این اے میاں جاوید لطیف، ضلعی صدر عارف خان سندھیلہ، سٹی صدر امجد نذیر بٹ، سابق ایم پی اے حاجی محمد نواز نے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین نے بانی پاکستان کو متنازعہ شخصیت بنانے کی ناکام کوشش کی ہے الطاف حسین کی تقریر کی پوری قوم بھرپور الفاظ میں مذمت کرتی ہے وہ پوری قوم سے معافی مانگیں۔ محقق اور قائداعظم پر ریسرچ کرنے والے ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کبھی برطانوی شہریت حاصل نہیں کی جس زمانے میں قائداعظمؒ زندہ تھے 1947ءسے پہلے متحدہ ہندوستان پر برطانوی حکومت تھی پاسپورٹ ایشو کرنے کی اتھارٹی حکومت برطانیہ کے پاس تھی لہٰذا قائداعظمؒ نے علم کے حصول اور مختلف کانفرنسز میں شرکت کیلئے برطانوی پاسپورٹ حاصل کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ برطانوی شہری تھے۔ جہاں تک تاج برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے کا سوال ہے تاریخ گواہ ہے کہ قائداعظم نے انگریزوں کی بڑی پیشکش ٹھکرائیں، برٹش پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت تقسیم ہند ہوئی، پاکستان کی آزادی کیلئے قائداعظمؒ نے ایک حلف اٹھایا جسے بعد میں تبدیل کرایا۔

ای پیپر-دی نیشن