قائداعظم کے پاس برطانوی شہریت تھی‘ طاہر القادری کے لانگ مارچ میں ہر قیمت پر شریک ہوں گے : الطاف حسین
کراچی (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ لانگ مارچ میں چند روز باقی ہیں، ایم کیو ایم لانگ مارچ میں ہر قیمت پر شرکت کرے گی کیونکہ ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جو ہمیشہ سچ بات کرتی ہے، ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر لندن سے براہ راست ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کہا کہ ماضی میں بہت سی سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کئے، کیا پیپلز پارٹی نے لانگ مارچ نہیں کئے؟ کونسی سیاسی یا مذہبی جماعت ہے جس نے لانگ مارچ نہیں کیا۔ ہم نے حکومت کے تمام فیصلوں کو تسلیم کیا اب حکومت کو لانگ مارچ میں ہماری شمولیت خلوص دل سے برداشت کرنی چاہئے۔ یہ کہاں لکھا ہے حکومت میں رہ کر لانگ مارچ نہیں کر سکتے۔ کوئی جماعت جمہوری جماعت کہلانے کی حقدار نہیں لیکن ایم کیو ایم جمہوریت کے قیام کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو اسمبلیوں میں بھیجا، ملک میں 65 سال سے جاگیردارانہ وڈیرانہ نظام نافذ ہے، اب بھی حکومت میں جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام موجود ہے۔ سینٹ اور پارلیمنٹ ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی، حکومت کے کئی اقدامات حلیف جماعتوں کو پسند نہیں آتے۔ ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم اور علیحدہ صوبہ نہیں چاہتی لیکن اگر بلدیاتی نظام نہ دیا تو اردو بولنے والے سندھی، سندھ کی تقسیم کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ حکومت کو قومیت پرستوں کی فکر ہے اتنی بڑی تعداد میں اردو بولنے والے افراد اور متحدہ کے کارکنوں کی نہیں۔ بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہے، اس کا خاتمہ کیوں کیا گیا؟ یہاں لوکل باڈیز سسٹم ہی نہیں، کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ لانگ مارچ میں ہماری شرکت کے اعلان پر گورنر سندھ کو ہٹانے کی بات کی گئی اگر یہ بات ہے تو ابھی ہٹا دیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ جان بچانے کے لئے کسی ملک کی شہریت اختیار کرنی پڑے تو وفاداری مشکوک ہو جاتی ہے؟ اگر بے نظیر بھٹو یا نواز شریف باہر رہیں تو وہ جائز ہے اور اگر کوئی کسی ملک کی شہریت مجبوراً لے تو اس کی حب الوطنی مشکوک ہے۔ 22 سال سے الطاف حسین ملک سے باہر ہے جتنا کارکنوں اور عوام سے رابطے میں رہا، کیا کوئی لیڈر رہا؟ لیکن جلاوطنی کے باوجود 22 سال سے عوام سے رابطے میں ہوں۔ الطاف حسین نے کہا کہ سعودی بادشاہ میرا دوست ہوتا تو 1992ء میں مجھے بھی وہاں محل مل جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے 99 فیصد عوام کو ملکی تاریخ سے آگاہ نہیں کیا گیا، پاکستانی تاریخ کے اہم حقائق قوم اور طلباء کے علم میں لانا چاہتا ہوں، مجھے تاریخ کے اوراق کھولنے پر مجبورکر دیا گیا ہے۔ الطاف حسین نے کہا ثابت کر دوں کہ قائداعظمؒ سلطنت برطانیہ کے وفادار تھے تو کیا کرو گے؟ ثابت کر دوں کہ قائداعظمؒ کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا تو کیا کرو گے؟ میں کیا کروں کہ میرے پاس ڈپلومیٹک پاسپورٹ نہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کئی ارکان دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان تقسیم ہوا، قیام پاکستان کی مخالف مذہبی و سیاسی جماعتیں آج محب وطن جماعتیں بن گئیں۔ قائداعظم نے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا یہ حلف لاہور کے چیف جسٹس سرعبدالرشید نے انگریزی میں لیا۔ قائداعظمؒ نے حلف میں کہا کہ شہنشاہ جارج ششم کا وفادار ہوں، حلف میں تھا کہ دونوں ممالک کے جنرل برطانیہ کے نمائندے ہوں گے۔ جس طرح قائداعظمؒ نے برطانوی شہریت کا حلف لیا اسی طرح میں نے بھی برطانوی شہریت کا یہ حلف اٹھایا ہے، آج بھی پاکستان آنا چاہتا ہوں۔ کیوں نہیںآنے دیتے؟ الطاف حسین نے کارکنوں اور رہنماﺅں سے سوال کیا کہ کیا اگلی فلائٹ سے پاکستان آ جاﺅں جس پر فاروق ستار نے جواب دیا کہ جو مجبوری قائداعظمؒ کی تھی وہی آپ کی بھی ہے، الطاف حسین کو کارکنوں نے پاکستان آنے سے منع کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 1947ءسے 1956ءتک پاکستانی آئین بننے تک برطانوی بادشاہت کے وفادار رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ میں ثابت کر سکتا ہوں قائداعظمؒ پورے پاکستانی نہیں تھے بلکہ برطانوی شاہ کے وفادار تھے۔ انہوں نے کہا کہ آج میری باتیں عام باتوں سے ہٹ کر ہوں گی۔ انہوں نے کوئٹہ دھماکے میں ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ الطاف حسین نے کہا کہ بھارت کی جانب سے سرحدوں کی خلاف ورزی شرمناک ہے کئی روز سے پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ الطاف حسین نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلاجواز کارروائی پر سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں، بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اپنی فوج اور شرمناک کارروائی اور بزدلانہ حملے بند کر دیں۔ یہ سفر جنگ کی طرف نہیں، امن کی طرف جانا ہے، بھارتی حکومت کو ان تمام واقعات پر نوٹس لینا چاہئے۔ الطاف حسین نے کہا کہ میں وزارت داخلہ سے کہتا ہوں کہ سرحدوں کی خلاف ورزی پر بھارت سے شدید احتجاج کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 1956ء میں پاکستان باضابطہ طور پر ری پبلکن جمہوریت بنا۔ دوہری شہریت کے فیصلے پر نظرثانی کی جانی چاہئے ایم کیو ایم کے خلاف ریاستی آپریشن کیا گیا طاہر القادری سمیت کسی بھی شہری کی دوہری شہریت پر شک نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملکہ الزبتھ 1947ءسے 1956ءتک پاکستان کی ملکہ رہیں۔ آنے والے تین گورنر جنرل نے بھی وہی حلف اٹھایا جو قائداعظمؒ نے اٹھایا تھا۔ برطانوی بادشاہ جارج ششم 1952ء تک پاکستان کے بادشاہ رہے۔ بھارت میں پہلا آئین 26 جنوری 1950ءکو نافذ العمل ہوا تھا۔ انسان حالات سے مجبور ہو کر اپنوں سے دور جاتا ہے برطانیہ سے وفاداری کا حلف نہ لیتا تو کیا سعودی عرب مجھے پناہ دیتا؟ ہماری ہر رات یہی سوچ کر گزر جاتی ہے کہ شاید صبح واپسی کی کوئی کرن لائے۔