• news

حکومت توقعات پر پورا اترتی تو آج شب خون مارنے کی باتیں نہ ہوتیں : نوازشریف ۔۔۔۔ جمہوریت عوام کی امانت ہے‘ ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے : اے پی سی کی قرارداد

لاہور (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیراہتمام آل پارٹیز کانفرنس گذشتہ روز مقامی ہوٹل میں ہوئی جس میں ملک کی 20 کے قریب سیاسی جماعتوں، پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، ہائیکورٹس ایسوسی ایشنوں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداران و ایگزیکٹو ممبران سمیت وکلائ، دانشوروں، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں نمایاں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، نیشنل پارٹی کے سابق صدر سنیٹر میر حاصل بزنجو، عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں، خیبر پی کے کے صدر افراسیاب خٹک، جمہوری وطن پارٹی کی رہنما روبینہ شاہ، جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید پراچہ، وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ خان، سپریم کورٹ بار ایسوسی یاشن کے سیکرٹری اسلم زار، خواجہ محمود و دیگر نے شرکت کی۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ قومی اسمبلی اور حکومت اپنے پانچ سال پورے کررہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اگر ان دونوں نے قوم کی توقعات بھی پوری کی ہوتیں تو آج اس آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور نہ ہی جمہوریت پر شب خون مارنے اور نقب لگانے والوں کے پاس کرنے کی کوئی بات نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس موجودہ جمہوری حکومت نے ڈیلیور نہیں کیا۔ ان سے پہلے ڈکٹیٹر بھی ڈیلیور نہیں کرسکا اور اسے نکالنا پڑا اور آج وہ ملک سے بھاگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ توانائی کا بحران، بجلی کی لوڈشیڈنگ پچھلا ڈکٹیٹر چھوڑ کر گیا مگر موجودہ حکومت نے بھی حالات کو بہتر نہیں بنایا اور آج خطے کے ہمسایوں میں سب سے نیچے ہم ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ پانچ سالوں میں ان چیزوں کو ٹھیک کیوں نہیں کیا گیا۔ پی آئی اے کو اپنی جاگیر بنا کر ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی یا کسی اور پارٹی کا دشمن نہیں ہوں۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ جمہوری عمل پر یقین رکھتی ہے تو پھر انہیں ڈیلیور کرنا چاہئے تھا، دراصل جو خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں میری ان سے لڑائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی خراب کارکردگی کی وجہ سے لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد ختم ہوگیا اور جمہوریت پر بھی اعتماد متزلزل ہوا ہے جس کے باعث طعنے جمہوریت کو سننے پڑتے ہیں۔ انہوں نے حکمرانوں سے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کیلئے آپ نے کیا کیا؟ کیا حکومت نے اپنی رِٹ کو منوایا؟ انہوں نے کہا کہ بہت سے معاملات میں سپریم کورٹ کا کردار حکومت سے زیادہ اہم رہا ہے۔ نوجوان شاہ زیب کے قاتلوں کو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد گرفتار کیا گیا۔ کیا قانون کے رکھوالوں کا فرض نہیں تھا کہ قاتلوں کو گرفتار کرتے۔ کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ کیا 100 آدمی مارنے والے ایک بھی شخص کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بنچ نے کراچی کے حالات کے بارے میں جو کچھ کہا کسی نے اس پر دھیان دیا؟ اگر سپریم کورٹ کے کہنے پر عمل کرنے کی ذمہ داری یہ لوگ ادا کرتے تو کراچی کا آج یہ حال نہ ہوتا۔ بھتہ خوری اور قتل معمول بن چکا ہے جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو ان سے مال لینے والے دوبئی بلاتے ہیں، معاملات طے کرنے پاکستان نہیں آتے۔ پاکستان سے سرمایہ بنگلہ دیش منتقل ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم (مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی) نے الیکشن 2008ءسے دو سال پہلے طے کیا تھا کہ الیکشن میں ایک دوسرے کا ساتھ دینگے۔ الیکشن کے بعد ہم نے ملک کی خاطر زرداری صاحب کو ساتھ دینے کی پیشکش کی اور کہا کہ ہمیں وزارتیں نہیں چاہئیں، بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ ہے، ججوں کی بحالی ہے، 17 ویں ترمیم کا خاتمہ ہے، دہشت گردی ہے، مگر انہوں نے ججوں کی بحالی میں ایک سال لگا دیا۔ 17 ویں ترمیم ایک دن میں ختم ہوسکتی تھی۔ اس میں دو ڈھائی سال لگادئیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے پہلے بھی ہاتھ کیا گیا، میثاق جمہوریت کئے جانے کے چند دن بعد این آر او ہوگیا جو کہ ہمارے لئے دھچکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی نظرئیے کے تحت چلنے کی بے اصولی کی جاتی۔ حکومت کے اپنے ہی اتحادی کہتے ہیں، ہم حکومت کے ساتھ رہتے ہوئے لانگ مارچ میں شامل ہوں گے۔ نائب وزیراعظم بھی کہتے ہیں لانگ مارچ کے ساتھ ہمدردیاں ہیں، یہ بھلا کیا ہے۔ دو کشتیوں کے سواروں کے پاﺅں اِدھر بھی ہیں اور اُدھر بھی ہیں۔ ایک طرف جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں کے ساتھ ہیں۔ ایسا دوغلا پن کرنیوالوں سے لوگوں کو اللہ بچائے۔ بلوچستان کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ بلوچستان میں الیکشن کے اندر حقیقی قیادت کو آنے دینا چاہئے۔ اگر حقیقی قیادت کا راستہ روک کر دوسرے لیڈروں کو لانے کی کوشش کی گئی تو یہ پاکستان کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ نے موقع دیا اور ہم نے مرکز میں حکومت بنائی تو بلوچستان کی حقیقی قیادت کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ انہوں نے اس موقع پر 1997ءمیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل اور اپنی مرکزی حکومت کے درمیان بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی غلطی کا بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے بعض ساتھیوں کے دباﺅ پر اختر مینگل کی حکومت ختم کی اور یہ کہ انکے اپنے لوگ بلوچستان میں ڈیلیور نہ کرسکے بلکہ اسلام آباد آکر پہلے وہ آرمی چیف کے پاس حاضری دیتے تھے حالانکہ اختر مینگل ایسا نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں قائل ہوچکا ہوں کہ عوام کی منتخب کردہ حقیقی قیادت بہترین ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جس صوبے میں جس کی بھی حکومت آئیگی میں اسکا احترام کرونگا۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں پاکستان اور بھارت دو ہی ملک رہ گئے ہیں جن کی سرحدوں پر فوجی مارے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومت کو اسکا نوٹس لینا چاہئے اور یہ نہیں ہونا چاہئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنماءسینیٹر میر حاصل بزنجو نے کہا کہ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں فوجی جنرل، طالبان، مولوی ہوں یا دوسری قوتیں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اپنی مرضی کا آئین پاکستان میں نافذ کروں۔ انہوں نے کہا کہ جلسے جلوس سے آئین تبدیل ہوا تو وہ ریاست کا آئین نہیں ہوگا۔ جمہوری نظام کی بقاءپاکستان کی بقاءہے اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری پنجاب پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کو ان حالات میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کیخلاف دیگر صوبوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کھڑا کیا تھا کہ پنجاب آپکے خلاف ہے لیکن جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے نوازشریف نے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا تو انہوں نے محمود خان اچکزئی، ولی خان کی طرح نوازشریف کو بھی غدار قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنیوالوں کا ہاتھ روکنے کیلئے پنجاب نے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہے، باقی سب چھوٹے صوبے آپکے ساتھ ہوں گے۔ انہوں کہا کہ طاہر القادری لاہور سے نکل کر حکومت قائم کرنے جا رہا ہے۔ اسکو روکنے کا فیصلہ میاں صاحب نے کرنا ہے اور یہ بھی طے کرنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا نظام دیکھنا ہے یا پاکستان کو فرسودہ ہوتے دیکھنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کررہی ہے اور انتخابی عمل شروع ہونیوالا ہے لیکن غیرآئینی ماورائے قانون شب خون کے آثار بھی نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تمام بڑے سانحات 35 سالہ فوجی ڈکٹیٹرشپ کے دور میں پیش آئے۔ فوجی ڈکٹیٹر کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں 50 لاکھ لوگ مارے گئے، 90 لاکھ ڈالر کا پاکستان کا نقصان ہوا۔ انہوں نے الطاف حسین کی جانب سے فوج کو انقلاب کا ساتھ دینے کی دعوت پر تنقید کی اور کہا کہ فوج کے 1965ءکی جنگ کے کردار کو قوم سراہتی ہے لیکن جب بندوقیں اپنی قوم کی طرف اٹھیں گی تو قوم فوج کا ساتھ نہیں دیگی۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری الطاف کا کھیل اسلئے ہورہا ہے کہ 2014ءمیں امریکہ، افغانستان سے جا رہا ہے۔ امریکہ یہاں ایک فوجی کو لانا چاہتا ہے تاکہ معاملات آسانی سے طے کرسکے۔ فرقہ وارانہ طور پر قوم کو تقسیم کرنے کی بھی عالمی سازش ہورہی ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آئین تبدیل کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے، کسی ایک شخص، سیاسی پارٹی یا گروہ کے سڑکوں پر بیٹھنے سے آئین تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ سپریم ہیں جو پارلیمنٹ کے ممبران کو منتخب کرکے بھجواتے ہیں اور آئین بنانا انکا کام ہے۔ سپریم کورٹ کا کام صرف تشریح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ انصاف کرے اور فوج سرحدوں کی حفاظت کرے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماءبھی بشیر بلور اور ملالہ کی طرح باہر نکلیں۔ ایک دوسرے کی جتنی مرضی مخالفت کریں مگر ایشوز پر اکٹھی حکمت عملی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جو ڈرون حملوں کیخلاف ہیں وہ خودکش حملوں کیخلاف بھی اٹھیں۔ متفقہ خارجہ پالیسی بنائی جائے اور بلوچستان پر بھی ایک ہی موقف ہونا چاہئے۔ پشاور ہائیکورٹ بار کے صدر لطیف آفریدی نے کہا کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں نے 18 ویں اور 19 ویں ترمیم کے ذریعے جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کیلئے متفقہ آئینی راستہ اختیار کیا۔ اب جو شخص یا قوت ملک کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کرے تو انکے خلاف آئین کا آرٹیکل 6 استعمال کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات بہتر بنانے کیلئے انکا حق تسلیم کرنا چاہئے۔ پشاور ہائیکورٹ سوات بنچ کے صدر شیر محمد نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل بنائیں تاکہ قوم بھی اس میں شریک ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں غیرجمہوری قوتوں کا راستہ روکنا چاہئے جو آئین و قانون کی بالادستی تسلیم کرنے کی بجائے انہیں پامال کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم قریشی نے کہا کہ بار ایسوسی ایشنوں نے کبھی کسی ڈکٹیٹر کا ساتھ نہیں دیا لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے فوجی ڈکٹیٹروں کی حمایت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں اسرار الحق نے کہا کہ پاکستان میں وکلاءنے ہمیشہ آئین اور قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے قربانیاں دیں۔ اس وقت ملک میں افراتفری اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور کچھ غیرجمہوری طاقتیں ملک کے حالات خراب کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاستدان اور جمہوری سوچ رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوجائیں تو ملک میں استحکام پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن قائم کرنے کیلئے فوری حل تلاش کیا جائے۔ ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کچھ لوگ کوششوں اور سازشوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف سے نجات حاصل کرنے کیلئے وکلاءنے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات غیرجانبدار، صاف شفاف اور آئین کے تحت ہونے چاہئیں مگر بعض لوگ انتخابات ملتوی کرانے کیلئے غیریقینی صورتحال پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا ایک لائحہ عمل بنائیں تاکہ ملک میں عام انتخابات غیرجانبدارانہ ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے پریشان کن صورتحال پیدا کردی۔ ملک میں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ نے بحران پیدا کردیا۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ جاتے وقت تو عوام کو بجلی، گیس جیسی سہولتیں فراہم کردے۔ بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین منیر گائر نے کہا کہ ہم نے ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا۔ پاکستان آزاد ہونے کے فوری بعد ہی یہاں جمہوریت کیخلاف سازشیں شروع کردی گئی تھیں اور جمہوریت کا تسلسل برقرار نہیں رہا۔ سیاسی افراد بھی مصلحت کا شکار ہوتے رہے جس کی وجہ سے حالات خراب ہونا شروع ہوگئے اور بعض لوگ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے اقتدار میں آئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری بقا جمہوریت کے اندر ہی ہے۔ پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین ملک غلام عباس نے کہا کہ پاکستان کے معرض وجود کے آتے ہی ہر دور میں جمہوریت کے خلاف کام ہوا اور سازشیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں جمہوریت کی وجہ سے ایک وزیر اور ایک جرنیل کے خلاف ایکشن ہوتا ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی رہنماﺅں سے اپیل کی کہ وہ ملک سے غربت کے خاتمے کے لئے صحیح جمہوریت لانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ میر عبداللہ کاکڑ نائب صدر بلوچستان ہائیکورٹ بار نے کہا کہ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے طاہر القادری جو کوشش کر رہے ہیں وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ عوام ایک ایسے شخص کو ملک پر مسلط نہیں ہونے دیں گے جس کی پاکستانی معاشرہ میں گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں مارشل لا روک رکھا ہے۔ جمہوری وطن پارٹی بلوچستان کی رہنما محترمہ روبینہ شاہ نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ جلد بازی میں حل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا گیا۔ ہمارے مسائل حق پرست رہنماﺅں کو اکٹھا بیٹھ کر حل کرنا ہو گا۔ سیاستدان سنجیدگی سے بلوچستان کے حالات کو دیکھیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں معدنیات اور دیگر وسائل سے لوگوں کو محروم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تو ہزاروں ”ملالہ“ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ پر لانگ مارچ کیوں نہیں کیا جاتا، لوگوں سے گھروں سے باہر نہیں آنے دیا جاتا۔ ان تمام مسائل کے حل کے لئے کون آئے گا۔ طاہر القادری جیسے لوگ ہمارے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سینیٹر حمد اللہ (فضل الرحمن گروپ) نے کہا کہ جمہوریت کے لئے کوئی دوسرا نظا م ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال کے بعد ہمیں قائداعظمؒ کا پاکستان نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان میں لسانی فسادات کرائے گئے، کراچی میں 5 سال میں 9 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے مگر کسی کو نہیں پکڑا گیا۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں صرف لاشوں کی فیکٹری چل رہی ہے۔ ایک جنرل نے اس ملک پر حکمرانی کی اور اس کے دور اقتدار میں 50 ہزار افراد مارے گئے، کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان کیا گیا اور اس جنرل کی پالیسی آج بھی اس ملک میں چل رہی ہے۔ ڈالروں کے ذریعے لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ لاہور (رپورٹنگ ٹیم) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ وہ پاکستان میں آئین و قانون کی بالادستی قائم کرنے اور ماورائے آئین قوتوں کا راستہ روکنے کے لیے متحد ہوکر کردار ادا کریں اور ایک متفقہ خارجہ پالیسی تشکیل دیں تاکہ پاکستان کو خطہ میں درپیش معاشی بحران اور دیگر مسائل سے نجات دلائی جا سکے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بعض غیر جمہوری قوتیں پاکستان میں جمہوری عمل اور آنے والے انتخابات سبوتاژ کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں جنہیں روکنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو مل کر کردار ادا کرنا چاہئے اور تمام جماعتیں اس یک نکاتی ایجنڈا پر کام کریں کہ ملک میں بروقت غیر جانبدارانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کروائے جاسکیں اور امپورٹڈ قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ کسی نے جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کے 20 کروڑ لوگ اسلام آباد کو تحریر سکوائر بنا دینگے۔ جمہوریت پاکستانی عوام کی امانت ہے، اسے ڈی ریل کرنے کی کوششیں ناکام بنا دی جائینگی۔ سپریم کورٹ بار کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس کے شرکا نے باہمی مشاوت کے بعد ملک میں جمہوری طریقہ کار کے مطابق صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی حمائت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بہتر کارکردگی کےلئے یہ ضروری ہے۔ سیاسی رہنماﺅں، وکلا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل شرکا نے دوسرے سیشن میں منظور کی گئی قرارداد میں کہا ہے کہ اس انتہائی نازک وقت پر جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو اس وقت معاشی بحران، غیر واضح خارجہ پالیسی اور بڑھتے ہوئے تشدد کا سامنا ہے۔ ان مسائل کو عوام کے منتخب نمائندے ہی حل کر سکتے ہیں۔ اس اہم موقع پر غیر جمہوری قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور اپنے فیصلے غیر جمہوری طریقے سے مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک میں دستوری طریقہ کار کے مطابق اپنے مقررہ وقت پر انتخابات کروائے جائیں۔ سیاسی جماعتوں پر زور دیا گیا کہ قوم کو درپیش سنجیدہ چیلنجز سے نمٹنے کےلئے اپنا کردار ادا کیا جائے۔ عوام کو خوراک، تعلیم اور روزگار کے حقوق ترجیحی بنیادوں پر دئیے جائیں۔ تمام جماعتیں مل کر دہشت گردی کے خلاف پالیسی بنائیں۔ تجارت اور امن کو فروغ کی بنیاد پر خارجہ پالیسی ملکی مفاد میں بنائی جائے تاکہ ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہو سکے۔ وکلا برادری سیاسی جماعتوں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔ وکلا کسی غیر جمہوری اقدام کی حمائت کی بجائے اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔ بار ایسوسی ایشن سیاسی جماعتوں کا محاسبہ بھی جاری رکھیں گی تاکہ عوام کو ان کے حقوق مل سکیں۔ اگرچہ عوام حالات سے مایوس ہیں اس کے باوجود ہم جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن