محترم قاضی حسین احمد ایک جیالے کی نظر میں
پاکستان قحط الرجال کے دور سے گزرر ہا ہے ۔ آج جب کہ عوام کو شریف النفس اور دیانتدارہنماﺅں کی ضرورت ہے وہ ایک ایک کرکے اُٹھتے جاتے ہیں۔ پی پی پی کے بانی نظریاتی رہنما ایس ایم مسعود ہمیں اچانک داغ مفارقت دے گئے اور اب اچانک قاضی حسین احمد ہم سے بچھڑ گئے۔ ایس ایم مسعود نے پی پی پی کے پودے کو پروان چڑھانے کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ بھٹو شہید نے ان کو وفاقی وزیرقانون کے منصب پر فائز کیا۔ بھٹو کی شہادت کے بعد نظریاتی کارکن اور رہنما نظر انداز ہونے لگے۔ ایس ایم مسعود آخری سانس تک پی پی پی کے ساتھ وفاداری بنھاتے رہے۔ان کی زندگی مالی اور اخلاقی سکینڈل سے پاک رہی جب کوئی مو¿رخ پاکستان کی نظریاتی سیاست پر کتاب قلمبند کرے گااس میں ایس ایم مسعود کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ قاضی حسین احمد سے میرا دیرینہ تعلق تھا۔ بلاشک وہ ایک کرشماتی شخصیت تھے۔ جب بھی ملتے بڑے تپاک سے ملتے جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب سے ملتا ہے۔ وہ دلوں کو جوڑنے والے تھے انہوں نے فرقہ واریت کے خاتمے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے قابل ستائش خدمات انجام دیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے رہنما کی حیثیت میں ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔میرے نیک اور شریف کلاس فیلو ڈاکٹر عبدالغنی فاروق قاضی صاحب کی جماعتی پالیسیوں کے ناقدر رہے ان کے خیال میں قاضی صاحب داڑھی والے بھٹو تھے۔ قاضی صاحب بھٹو کے عوامی انداز میں سیاست کرتے تھے جو عبدالغنی فاروق کے نزدیک جماعت اسلامی کی روایتی ، فکری اور نظریاتی سیاست سے کھلا انحراف تھا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ میرا کلاس فیلو چونکہ پی پی پی کا کٹڑ مخالف ہے جبکہ قاضی صاحب تعصب سے پاک شخصیت تھے اور بھٹو کی عوامی سیاست اور جمہوریت کے لیے ان کی خدمات سے متاثر تھے۔ یہ بات میرے کلاس فیلو کو ہرگز گوارا نہ تھی۔ قاضی صاحب ہردل عزیز شخصیت تھے۔ منصورہ میں ان کے تعزیتی ریفرنس میں تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے افراد اور صحافی بڑی عقیدت کے ساتھ شریک ہوئے اور قاضی صاحب کو بڑی محبت کے ساتھ نذرانہ عقیدت پیش کرتے رہے۔قاضی صاحب عاشق رسولﷺ تھے جس کا عملی اظہار انہوں نے اطاعت رسولﷺ کرکے کیا۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ لہو کیا ہے
محسن انسانیت رحمت الالعالمینﷺ تعصب اور بغض سے پاک تھے۔ فتح مکہ کے روز خانہ کعبہ میں آپﷺ مناصب عطافرما رہے تھے۔ آپﷺ کے پیارے چچا حضرت عباسؓ اور آپ ﷺکی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے شوہر حضرت علیؓ نے التماس کی کہ خانہ کعبہ کی کلید ان کو عطا کردی جائے۔ آپﷺ نے تعصب اور عصبیت کو مسترد کرتے ہوئے عثمان بن طلحہؓ کو طلب کیا اور کلید کعبہ اس کے حوالے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ”یہ لو چابی آج نیکی اور وفاشعاری کا دن ہے“۔ عثمان بن طلحہؓ نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا اور ہجرت سے پہلے جب آپﷺ نے کعبہ کا طواف کرنا چاہا تو عثمان بن طلحہؓ نے کعبہ کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا تھا۔ قاضی صاحب نے سنت رسولﷺ پر عمل کرتے ہوئے تعصب عصبیت اور بغض کو مسترد کرکے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب ہاتھ بڑھایا اور جماعت اسلامی کو ہر طبقے اور ہر شعبہ زندگی کے افراد کے لیے قابل قبول بنادیا۔ ان کا وژن محدود نہیں تھا بلکہ اپنے اندر امت مسلمہ کے اتحاد کی وسعت لیے ہوئے تھا۔
ایک ملاقات میں قاضی صاحب نے بتایا کہ ہر حکومت نے ان کے اور قریبی رشتہ داروں کے بارے میں مکمل چھان بین کی تاکہ کوئی ایسا سکینڈل مل جائے جسے قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے خلاف استعمال کیا جاسکے مگر ہر حکومت ناکام ہوئی۔میرے اچھے کلاس فیلو کے محبوب لیڈر جنرل ضیاءالحق نے بھی بھٹو شہید کے خلاف مالی سکینڈل تلاش کرنے کی ہزار جستجو کی مگر ناکام رہا۔ قاضی صاحب کا ظاہر و باطن ایک تھا وہ گفتار کے غازی بھی تھے اور کردار کے غازی بھی تھے۔ کالم نگاروں نے قاضی صاحب کے مثالی عملی کردار جیسی خوبی کو نظر انداز کیا ہے جو آج کل بڑی نایاب ہے۔ عالم اسلام کردار کے بحران سے گزررہا ہے۔ باکردار انسان ہمارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ قاضی صاحب دوستوں کی دعوت خوشی سے قبول کرتے تھے۔ چند ماہ قبل میں نے ان کو ٹیک کلب میں ڈنر کی دعوت دی وہ وقت مقررہ پر تشریف لائے اور حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا ۔ ان کی باتیں دو ٹوک ہوتی تھیں اور ان میں کسی قسم کی مصلحت کا شائبہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ گزشتہ دنوں میں میں ان سے فون پر ملاقات کا وقت مانگا انہوں نے محبت سے فرمایا کہ میں جس وقت مناسب سمجھوں منصورہ آجاﺅں۔ میری بدقسمتی کہ مصروفیت کی بناءپر ملاقات کی سعادت حاصل نہ کرسکا۔ بھٹو شہید اور قاضی صاحب میں ایک قدر مشترک یہ بھی تھی کہ دونوں رہنما اپنی زندگی کے آخری ایام میں اس نتیجے پر پہنچے کہ جب تک عوامی انقلاب برپا کرکے پاکستان پر سیاسی اور معاشی مافیاز کی اجارہ داری اور بالادستی کو ختم نہ کیا جائے اور عوام کی بالادستی قائم نہ کردی جائے پاکستان کے قومی اور عوامی مسائل حل نہیں کئے جاسکتے۔ خدا قاضی صاحب کی نیک دختر سمیعہ راحیل قاضی اورفرزند ارجمند ڈاکٹر لقمان قاضی کو صبر جمیل عطا فرمائے اور انہیں قاضی صاحب کا مشن مکمل کرنے کی توفیق دے۔ قاضی صاحب علامہ اقبال کے عاشق تھے میں اقبال کا ایک شعر ان کی نذر کرتا ہوں۔
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
رزم ہویا بزم ہو پاک دل و پاک باز