شیخ الاسلام کا ”خمینی“ بننے کا شوق....
پاکستان میں ایک سونامی خان ہی مان نہیں تھاکہ عین انتخابات کے لب بام پر شیخ الاسلام بھی ایک نئے اور نرالے ایجنڈے کے ساتھ آ دھمکے۔ ان کے دل میں ملک و قوم کا درد اچانک ”کنیڈین نیشنلٹی،، کے بعد اتنا برپا ہوا کہ پاکستان آکر چین ملا۔ شاید ڈالروں کی گٹھڑیوں پر سوار ہو کر لاہور پہنچے تھے کہ جدھر دیکھئے، نوٹوں کی جھنکار سے ان کے نام کے ُسر نکل رہے تھے۔ ایک اطلاع کے مطابق ٹی وی چینلز پر اشتہارات کا بل ایک ارب روپے سے زائد تھا۔ لاکھوں کا اجتماع بھی ڈالروں کا سمندر بہائے جانے سے ہی ممکن ہوا۔ اتنی رقم رحمٰن ملک یا کسی اور نتھو خیرے کو دے دی جائے تو وہ بھی 23دسمبر کے شیخ الاسلام کے مجمع سے تین گنا بڑا مجمع لگا سکتاہے۔ مینار پاکستان پر عمران خان کی طرح ہاﺅس فل دیکھ کر شیخ الاسلام بھی خود کو وزیر اعظم سمجھنے لگے۔ عمران خان تو پھر بھی انتخابی عمل کے ذریعے وزارت عظمیٰ کی کھجور پر چڑھنا چاہتا ہے۔ شیخ الاسلام تو انتخابی تکلف کے بغیر ہی خود کو اس عہدے پر بٹھا لینا چاہتے ہیں۔ اگر حضرت علامہ کو کسی بھی طریقے سے وزارت عظمٰی مل جاتی ہے تو وہ اس پر محض چند دن ہی ”مہمان وزیر اعظم ،، رہ سکیں گے کیونکہ موصوف حضور علیہ الصلوة والسلام کے حوالے سے یہ بشارتیں لوگوں تک پہنچا چکے ہیںکہ وہ حضور ﷺکی عمر 63سال سے زیادہ ایک سانس بھی نہیں لیں گے۔ محترم شیخ الاسلام 19فروری 1951کو پیدا ہوئے ۔ حضور ﷺ کی 63سال عمر سن ہجری کے مطابق تھی۔ شیخ الاسلام کی عمر بھی سن ہجری کے مطابق 63سال ہونے میں صرف چند مہینے رہ گئے ہیں۔ دنیا کو انتظار رہے گا کہ اب شیخ الاسلام اس دنیاسے کب تشریف لے جاتے ہیں؟
عوام جاننا چاہتی ہے کہ شیخ الاسلام کا خطاب تو خلافت عثمانیہ کی طرف سے دیا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈاکٹر ،علامہ طاہر القادری کو یہ خطاب کہاں سے ملا؟فی الوقت تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے کیونکہ یہ کوئی ڈگری نہیں اس لیے کہیں بھی چیلنج نہیں ہو سکتا۔ ”طاہر القادری امام مسجد سے شیخ الاسلام کے درجے پر پہنچے ہیں تو اس ترقی کا آغاز ماڈل ٹاﺅن کی ”مسجد الشریف،، سے ہوا۔ قادری صاحب تنخواہ دار مولوی سے ملّا اعظم بن کر آج ماڈل ٹاﺅن والوں کو ہی میاﺅں میاﺅں کر رہے ہیں۔ کسی زمانے میں ان کو پٹواریوں کے تبادلے کروانے کا بھی بڑا شوق رہا ہے۔ ہم تو شروع سے ان کے اعلیٰ کردار کے معترف ہیں۔ ان پر ہمارے اعتماد اور اعتبار کو خود ساختہ فائرنگ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے تشکیل دئیے گئے جسٹس اختر حسین کمیشن کی سفارشات بھی متزلزل نہ کر سکیں جس میں قابل احترام ہستی کو جھنگ کے ادنیٰ خاندان کا سپوت‘ محسن کش‘ جھوٹا اور شہرت کا بھوکا قرار دیا گیا تھا۔
مشرف مارشل لا¿ 12 اکتوبر 1999ءکے اس واقعہ نے ہمارے اعتقاد کو مزید پختہ کر دیا جب علامہ پریس کلب میں صحافیوں سے محو گفتگو تھے۔ سنا ہے کہ دوران گفتگو ان کے ہرکارے نے موبائل فون ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے ہیلو ،ہائے کے بعد! ہوں، ہاںکیا اور وہاں حاضرین کو بتایا GHQسے فون تھا کسی نے نشاندہی کی ، قبلہ موبائل سروس سر شام بند ہو گئی تھی۔ اس پر فرمایا کہ سپیشل کیس میں سروس کھل سکتی ہے۔طاہر القادری کے خمینی بننے کے شوق سے معروف شاعر مظفر وارثی نے پردہ ہٹایا ہے۔ اثر چوہان صاحب نے چند ماہ قبل ”نوائے وقت“ میں شائع ہونے والے کالم میں مظفر وارثی کے خیالات سے آگاہ کیا۔
نامور شاعر مظفر وارثی ”پاکستان عوامی تحریک“ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن رہے اور قادری صاحب نے انہیں ”شاعرِ انقلاب“ کا خطاب دیا تھا۔ پھر وارثی صاحب‘ ان سے اور ان کی عوامی تحریک سے الگ ہو گئے۔
مظفر وارثی کی خود نوشت ”گئے دِنوں کا سُراغ،، کے ایک باب کا عنوان ہے۔۔۔ ”ہم اور پاکستان عوامی تحریک،، ۔۔۔ اس میں مظفر وارثی لکھتے ہیں۔۔۔۔ ”ڈاکٹر طاہرالقادری،،اپنی کرامات بڑے فخرسے بتایا کرتے۔۔۔ ”میں چلتا تو، بھیڑیں چل پڑتیں۔۔۔ میں رکتا تو رک جاتیں۔۔۔ اہلیہ کو غصے میںاندھی کہہ دیا۔ وہ واقعی اندھی ہوگئیں، پھر میری دعا سے آرام آیا۔۔۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیریں اپنی مرضی کی کرلیتے اور ہر مطلب کے آدمی کونوید سناتے کہ ”خواب میں حضور ﷺ نے ان کی خدمات کو سراہا ہے ۔۔۔ سول سیکرٹریٹ پنجاب میں ڈاکٹر صاحب کی ذاتی فائل کھلی تھی۔ ان کے تمام احکامات اس پر درج ہوتے اور ان پر عمل ہوتا تھا۔ طاہر صاحب نے بہنوں کے نام پلاٹ الاٹ کرائے۔ سالے کو نائب تحصیلدار اور بھانجے کو اے ایس آئی بھرتی کرایا۔ میاں محمد شریف۔ طاہر صاحب کو شادمان سے اتفاق مسجد لے گئے ۔گاڑی دی، مکان دیااور 40طالب علموں کا سارا خرچ برداشت کرتے تھے۔۔۔ ”طاہر القادری کو امام خمینی بننے کا شوق تھا، لیکن انداز رضا شاہ پہلوی والے تھے۔ وہ پنجاب حکومت کو بدنام کرنے کےلئے ”جھوٹا فائرنگ کیس،،لے کر عدالت گئے، لیکن صاحب عدالت نے طاہر القادری کو جھوٹا اور شہرت کا بھوکا قرار دیا“۔
آج شیخ الاسلام وطن عزیز میں کسی کی بھی سمجھ میں نہ آنے والا جمہوری فلسفہ پیش کررہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت محب وطن عوام ،محب وطن سیاستدانوں ،میڈیا، وکلا اور سول سوسائٹی کے خون جگر دینے سے بحال ہوئی ہے۔مسلم لیگ (ن)کے قائدین اور کارکنوں نے جلا وطنیاں اور جیلیں کاٹی ہیں۔ بادل نخواستہ پانچ سال کرپشن میں لتھڑی ہوئی مرکزی حکومت کو برداشت کیا۔ کیا یہ سب اس لیے کیا گیا ؟کہ ایک دن گھڑ سوار ”قادری ،،دھول اڑاتا آئے اپنی وزیر اعظم بننے کی خواہش کو حقیقت میں بدلنے کےلئے جمہوریت کا پودا اکھاڑ پھینکے۔۔۔جبکہ بہترین طریقہ تو انتخابات ہیں 1997اور 2002ءکے انتخابات میں طاہر القادری کی پارٹی برے طریقے سے ہاری اور 2008ءکے الیکشن میں انہوں نے نہ صرف راہ فرار اختیار کیا بلکہ سیاست ہی سے تائب ہو گئے۔ اب وہ اربوں روپے لگا کر چور دروازے سے اقتدار میں آکر امام خمینی بننا چاہتے ہیں۔ میری تمام محب وطن سیاستدانوں اور عوام سے اپیل ہے کہ وہ باہم متحد ہوکر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے والوں کی سازش کو ناکام بنا دیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ”زرداری حکومت ،،میاں محمدنواز شریف کی تجویز انتخابات کے شیڈول کا فوری اعلان کردے۔