ہم وطنو! سیکولر بھارت ہے کیا؟
سیکرٹری کامرس منیر قریشی نے بھی ہائے افسوس اظہار بے ایمانی کر دیا ہے کہ کابینہ فیصلے کے تحت جلد ہی منفی تجارتی فہرست کا خاتمہ کر کے بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک کا درجہ دیدیا جائے گا۔
بھارت کے چہرے پر سیکولر ازم کا نقاب ہونے کے باوجود اس ملک میں اٹھارہ کروڑ مسلمان ایک ایسی اقلیت بن چکے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں دوسرے بھارتی شہریوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد ہے لیکن بھارت کے قومی جرائم بیورو کی رپورٹ کے مطابق ایک ارب نفوس سے زیادہ آبادی کے اس ملک کی جیلوں میں 21 فیصد قیدی مسلمان ہیں۔ اس وقت افغانستان اور پاکستان کو ”امریکہ کی تیارکردہ“ دہشت گردی کے واقعات کا سامنا ہے لیکن بھارت کو شدت پسندی جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ آج تک کوئی بھارتی باشندہ القاعدہ یا طالبان کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے نہ تو افغانستان میں پایا گیا اور نہ ہی کسی بھارتی مسلمانوں نے کشمیر میں مسلمان مجاہدین کی کبھی مدد کی ہے۔ دراصل تقسیم ہند کے وقت جن مسلمانوں نے مملکت خداداد پاکستان کی طرف نقل مکانی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا انہوں نے آل انڈیا کانگرس کی اس وقت کی قیادت کے اس قول پر یقین کر لیا تھا کہ بھارت ایک سیکولر سٹیٹ ہو گی۔
بھارت نے ہندو سٹیٹ کے چہرے پر سیکولرازم کا نقاب ڈالنے کے لئے ایک مسلمان سکالر اور سیاستدان مولانا ابوالکلام آزاد کو بھارت کا پہلا صدر بنایا تھا۔ ان کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدالکلام بھی بھارت کے صدر بنائے گئے اور وفاقی کابینہ میں بھی ایک دو مسلمان وزیر شامل ہوتے رہے ہیں حتیٰ کہ ان دنوں جب پاکستان کے حکمران طبقے کی طرف سے بھارت کو پاکستان کے لئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیئے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں ان دنوں بھارت کی وزارت خارجہ کا قلمدان ایک مسلمان سلمان خورشید کے ہاتھوں میں ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر خارجہ مخدوم امین فہیم کی طرف سے بھارت میں اپنے ہم منصب وزیر تجارت اور بھارتی وزیر خارجہ کو یہ یقین دلا رکھا تھا کہ سال 2013ءکے آغاز پر پاکستان کی طرف سے بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی ملک ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا لیکن پاکستان کی حکومت پر کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے باعث عوامی حلقوں، سیاسی، مذہبی اور جہادی جماعتوں کا دباﺅ ہے کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے پہلے ریاست جموں و کشمیر کو آزاد کرایا جائے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے اندر مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی طرف سے تو آنکھیں بند کرنے کا یہ جواز بنا رکھا ہے کہ وہاں اگر 13 فیصد مسلمان آبادی میں سے 21 فیصد مسلمان مختلف جرائم بالخصوص دہشت گردی کے واقعات اور شدت پسندی میں ملوث کر کے پس دیوار زنداں ہیں تو یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے لیکن انہیں مقبوضہ کشمیر میں فوجی اہلکاروں کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر بھی کوئی تشویش نہیں ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں گذشتہ 22 برسوں سے جاری فرضی جھڑپوں، حراست کے دوران ہونے والی اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں مبینہ طور پر 235 فوجی اہلکاروں، 133 نیم فوجی اہلکاروں، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابق فوجی افسروں کو سنگین جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ ان فوجی افسروں اور اہلکاروں میں 2 میجر جنرل، 3 بریگیڈیئر، 9 کرنل، 3 لیفٹیننٹ کرنل، 78 میجر اور 25 کیپٹن بھی شامل ہیں۔ بھارت میں 18 کروڑ مسلمانوں میں نہ تو عسکریت پسندی کا رجحان ہے اور نہ ہی اس ملک میںرہنے والے کلمہ گو جہادی تنظیموں کے رکن ہیں۔ یہ لوگ مساجد کی بے حرمتی جیسے واقعات پر تو لازمی سیخ پا ہوتے ہیں لیکن عام طور پر انہیں احساس ہے کہ وہ اقلیت ہیں لہٰذا وہ پُرتشدد واقعات کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں۔ بابری مسجد کو شہید کئے جانے پرتو بھارت میں بلاشبہ ردعمل سامنے آیا تھا ۔ یہ واقعہ بھی بھارت کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔
بھارت سیکولرازم کا داعی ہے لیکن بھارتی مسلمان پرتشدد واقعات میں ملوث ہوئے بغیر بھارتی پولیس اور ایجنسیوں کو انتہا پسندوں کے طور پر مطلوب رہتے ہیں۔ بھارتی پولیس اور سیکورٹی فورسز جب چاہیں انہیں کہیں سے بھی گرفتار کر لیتی ہیں اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں انہیں جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے جہاں وہ سالہا سال تک ناکردہ گناہوں کی سزا جھیلتے ہیں حالانکہ بھارتی عدالتیں سینکڑوں مشتبہ مسلمانوں کو باعزت بری کر چکی ہیں لیکن بری ہو جانے کے باوجود وہ تھانے چوکی کو دہشت گردوں کے طور پر مطلوب رہتے ہیں۔ جو کوئی ایک مرتبہ دہشت گردی کے الزام میں پکڑ لیا جاتا ہے وہ کم از کم دس پندرہ سالوں تک تو جیل میں بند ہو جاتا ہے۔ یہ جیل یاترہ ان کی زندگیاں برباد کر دیتی ہے۔ وہ اپنے حق میں لاکھ دلیلیں دیں انکے لواحقین انکی بے گناہی کے لاکھ ثبوت فراہم کریں انکو دہشت گردی کے الزام سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ گذشتہ دنوں ایک مسلمان کو جس کا نام محمد عامر ہے 14 سال کے بعد عدالت سے رہائی ملی۔ وہ عنفوان شباب میںپکڑا گیا تھا زندگی کے قیمتی 14 سال جیل میں گزار کر نکلا تو قیدوبند کی صعوبتوں اور گزرے ہوئے ماہ و سال نے اس کے جسمانی خدوخال تک تبدیل کر دیئے تھے۔ اس دوران اسکے جیل جانے کے صدمے نے اسکے باپ کی زندگی لے لی تھی اور اسکی ماں بیماری سے بے حال ہو چکی تھی۔ بھارت کی جیلوں میں بند اکثر بھارتی مسلمانوں نے مختلف این جی اوز اور مسلمان تنظیموں کو خطوط بھی لکھے ہیں جن میں اپنی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر انہیں رہائی نہ ملی تو وہ خودکشی کا ارتکاب کر لیں گے۔
یو پی جیل سے بھیجے گئے خطوط میں دو مختلف مسلمان قیدیوں نے پولیس اہلکاروں کی درندگی اور وحشیانہ پن کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کے مظالم اب ان کیلئے ناقابل برداشت ہو گئے ہیں اور وہ اپنی زندگیاں ختم کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو گئے تو اسکی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ بھارتی پولیس کی سفاکی اور درندگی کا ایک ثبوت ظلم سے تنگ آ کر خودکشی کا ارتکاب کرنے والے عبدالرزاق سے مل جاتی ہے۔ عبدالرزاق کے بھائی عبدالمقیت نے بتایا کہ خودکشی سے پہلے عبدالرزاق نے اپنے ہاتھ سے لکھی تحریر چھوڑی ہے کہ اسے سی آئی ڈی اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران مسلسل ہراساں کر رہے ہیں۔
بھارت میں ہر مسلمان کو پاکستان کا جاسوس اور آئی ایس آئی کا ایجنٹ سمجھا جانے لگا ہے اور اگر کوئی بھارتی مسلمان نوجوان کسی کرکٹ یا ہاکی میچ میں پاکستانی ٹیم کے حق میں بات کرتا ہے یا پاکستانی کرکٹر کے چوکا چھکا لگانے یا بھارتی بیٹسمین کو آﺅٹ کرنے پر تالی بجا کر خوشی کا اظہار کرتا ہے تو ہفتہ دس دن کے اندر اندر اسے پکڑ لیا جاتا ہے حالانکہ وہ بھارتی کھلاڑیوں کے لئے بھی اسی طرح چوکا چھکا لگانے اور وکٹ لینے پر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر پکڑے جانے والوں کے بہت سے قیمتی ماہ و سال بھارتی جیلوں میں گزر جانے کے بعد انہیں رہائی ملتی ہے تو جیل سے باہر ایک تاریک مستقبل ان کا استقبال کرتا ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتا ہے۔ چند ماہ پہلے پاکستان کے ایک 82 سالہ سائنسدان ڈاکٹر خلیل چشتی کو20 سال بھارت کی جیل میں انتہائی تکلیف دہ ماہ و سال گزارنے کے بعد رہائی ملی اور وہ پاکستان آئے تو ان کو ناحق قتل کیس میں ملوث کر کے اسکے خلاف مقدمہ چلانے اور اسے جیل میں مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے واقعات پاکستانیوں کیلئے بھارت کے حوالے سے لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں۔ خصوصاً حکمرانوں کیلئے جو بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ بہت جلد بھارت کو تجارت کیلئے پسندیدہ ترین ملک قرار دیدیا جائے گا۔