اندر کا موسم
دُعا کرو۔کام ہو جائے۔ بہن دعا کرو۔ کل کوئی اچھی خبر ملے۔ بھائی جان۔ کر تو رہے ہیں۔ اب مزےد کیا کرےں؟ دعائیں کرتے کرتے تو اب تھک سے گئے ہیں۔ اب تو ”اﷲ تعالیٰ “ سے استدعا کرےں کہ وہ ہمارے لےے یہ دعا قبو ل فرمائے کہ ”اﷲ تعالیٰ“ ہماری تمام ” دعائیں“ قبول فرمائے۔
بہن ہمارے ”بزرگ“ آپ کو بہت دعائیں دے رہے تھے۔ بہت شکریہ ۔ ”اﷲ “ کرے دُعا لگے بھی۔ اب تو یہ دعا کرنی چاہئے کہ دعائیں قبول ہونی شروع ہوں۔
غریب اور امیر میں کیا فرق ہے؟؟
فرق ”خریداری“ میں ہے۔۔مطلب؟؟ ”امیر“ بس چےزیں اُٹھاتا ہے۔ ”غریب“ بھاﺅ تاﺅ کرتا ہے۔ ”امیر“ خواہش پوری کر لیتا ہے۔ ”غریب“ بس سوچتا رہ جاتا ہے۔ غربت اس کے لئے۔ جو سوچ لے کہ میں غریب ہوں۔ پیسہ اور عزت کماتے کماتے ساری عمر بیت جاتی ہے اور برباد کرنے کے لئے ایک منٹ بھی کافی ہوتا ہے۔ چھوٹی شاخیں ”بڑے تنے“ سے ہی پھوٹتی ہیں۔ اگر ”تنا“ سہارا نہیں دے گا تو ”شاخ “ نے تو پھر سوکھنا ہی ہے۔
بات کی بنیاد مضبوط ہو۔ بات کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ بات کو سمجھنے کے لئے ”اہل علم یا اہل ذوق“ ہونا ضروری نہیں۔ حکمت کو سمجھنے۔ دانش کو اپنے اندر سمونے کے لئے ”اہل دل “ ہونا ضروری ہے۔ بات سمجھنا ہے تو دل ہونا پہلی شرط ہے ”دل “ تو سبھی کے ہوتے ہیں ہاں مگر سمجھنے والے بہت کم۔ دھڑکنے والے اور بھی۔ کم کسی کے دکھوں پر ۔کسی کی آہوں پر۔ ویسے بھی ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے۔ حالات کی پُکار ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہوتا ہے ۔ مگر” ماں باپ“ کی باتےں حالات کا تقاضا نہیں ہوتیں نہ ہی وقت کی بندش کا شکار۔ جب فاصلے ہوں تو باتوں کو بھی کھےنچنا پڑتا ہے۔۔ چاہے مقابل کوئی بھائی۔ بہن ہی ہو ۔۔ جبکہ قربتوں میں تو باتیں خود بخود ہی ہو جاتی ہیں۔ آنکھےں۔ دل۔ بدنی زاوئیے محبتوں کے عکس بن جاتے ہیں۔۔ پیغامبر بن جاتے ہیں۔۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنی عزت بہت پیاری ہوتی ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہمہ وقت ”چوک“ میں کھڑے رہتے ہیں۔
اب اپنی عزت کو ہر بات میں مقدم رکھنے والوں اور ”چوک“ میں کھڑے رہنے والوں میں فرق تو ہے ناں۔ فرق کچھ کم نہیں۔ خاصا فرق ہے۔ انسان کو ”کنوئیں“ کی مانند ہونا چاہئے کہ ہر شخص اپنا اپنا حصہ ڈالتا جائے۔ کنوئیں کو اُبلنا نہیں چاہئے۔ اندھے کنوئیں میں پھینکنا درست نہیں۔ عقلمندی یہ ہے کہ اگر کنوئیں سے پانی نہیں نکل رہا تو ا ُسے بند کر کے ساتھ میں دوسرا کنواں کھود لیا جائے۔ کوئی اُونچی کرسی پر بیٹھا ہے ۔ تو کوئی نیچی کُرسی پر براجمان ہے۔ رکھی تو دونوں زمین پر ہیں ناں ۔۔ زعم کس بات کا؟؟۔ وہ کن لمحوں کا خراج تھا جو الفاظ کا روپ دھار گئے۔۔ زندگی کی کوئی چھبن تھی یا پھر کوئی تشنگی کا احساس۔۔ حاصل تذکرہ یہ کہ ”دستک“ ایک بار ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی دروازہ کھول کر بند کر دے تو کوئی دوسرا کیا کر سکتا ہے؟؟ زندگی کی خوبصورتی اندر کے موسم پر منحصر ہے نیت میں خلوص۔ دماغ میں اچھا ارداہ دل میں محبت کے جذبات اس طرح کہ کینہ۔ بغض۔ حسد کو پنپنے کا راستہ ہی نہ ملے۔ اندر کا موسم خوشگوار ہونا چاہئے۔ پاکستان زندہ باد