2012ءسانحات اور آہ و فغاں کا سال
وقت اگر ایک سانحہ پر رُک جاتا تو شاید آج دنیا نوحہ کناں ہوتی یا فنا ہو چکی ہوتی۔ اسی لیے تو آزادیِ پاکستان کے بعد ہمارا وطنِ عظیم پاکستان جن بھی مسائل سے گزرا، جو حادثاتِ زندگی اس کی عوام کو دیکھنے پڑے جو کرب و الم اس قوم کی ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں نے برداشت کیے، جو اس قوم کے معماروں نے 1947 سے لیکر آج تک اپنے جسمانی اعضا اور گردنوں کی قربانیاں دیں وہ بے مثل ہیں ۔۔۔ سقوطِ ڈھاکہ کا جو گھاﺅ اس وطن اور عوام کے سینے پہ لگا وہ آج تک رِس رہا ہے ۔۔۔ آسمانی اور زمینی آفات سے جو خاندان اور ہمارے آباد شہر برباد ہوئے اُس کا قلق جان کو الگ سے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ۔۔۔ لا ل مسجد کی بدترین تباہی آج بھی ہمارے آنسوﺅں کا رنگ لال کیے ہوئے ہے ۔۔۔ سیاستدانوں کے غلط فیصلے، آمریت، جارحیت دم توڑتی جمہوریت، خوفزدہ عدالتی نظام، کرپشن سے بھرپور معاشرہ ۔۔۔ عوام کی رگوں سے لہو نچوڑنے کا بہیمانہ عمل۔ بڑی عمارتیںبڑے نام بنا کر درسگاہوں میں علم بیچنے کا گھناﺅنا کاروبار، حوا زادی کی معاشرے میں تذلیل و تحفیر، شریعت کے نام پر سیلاب کی طرح پھیلائے جانے والا اپنا ظالمانہ نظام، تعصبانہ رویوں کی بھینٹ چڑھائے جانے والی مستحق اور غریب مخلوق ۔۔۔ سفید پوش خلقِ خُدا کے ہاتھ میں دیے جانے والا کشکول، پاکستان جیسے عظیم الشان اسلامی مملکت کے بٹوارے کی بیرونی طاقتوں کے ساتھ ملکر گھناﺅنی سازشیں ۔۔۔ آخر کیا تحریر کروں ۔۔۔ سوختہ جگر ہے اندھیر نگر ہے۔۔۔ زمین بنجر ہے ۔۔۔ بے سایہ شجر ہے ۔۔۔ زیست ابتر ہے ۔۔۔ زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں ۔۔۔ 2012 کا سال جرائم کی شرح کے حوالے سے بدترین سال رہا ۔۔۔ کیونکہ صرف شہرِ زندانِ لاہور میں ہی گیارہ گھنٹے پینتیس سیکنڈ کے بعد ایک بے گناہ معصوم شہری قتل ہوتا رہا ۔۔۔ صوبہ بھر کے تھانوں میں اندازاً 4 لاکھ سے زائد مقدمات درج تھے جو کہ نہ صرف قتل و غارت پہ مبنی تھے بلکہ اغوا، جائیداد کے جھگڑے پر خاندانوں کی دشمنیاں، ریپ، ڈکیتی، راہزنی، شامل تھی۔ پولیس مقابلوں میں 950 تک افراد قتل ہوئے۔ گھریلو ناچاقیاں اس حد تک بڑھ گئیں کہ جلانے، تیزاب پھینکنے، قتل کرنے اور معذور کر دینے کی حد تک اضافہ ہوا۔ ملک کے تمام صوبوں کے ساتھ ساتھ حیرت ناک بات یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں 2012ءکا سال جرائم کے حوالے سے بدترین رہا حالانکہ جتنی آسان اور عام یہاں تعلیم اور شعورِ انسانیت ہے شاید دوسرے صوبوں میں نہیں ہے ۔۔۔ اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ انسانی زندگی کا ارزاں ہونا ہے۔ انسانیت کی اہمیت وہاں ختم ہوتی ہے جہاں ہم اپنے دین کو بھول جاتے ہیں۔ احادیثِ نبوی اور سیرتِ نبوی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اسلام تو ایسا مذہب ہے جو کہ عدل قائم کرتا ہے اور یہ عدل صرف عدالت ہی میں نہیں زندگی کے ہر شعبے، ہر رشتے پر انسان ہر طبقے کے لے ایک سا ہے۔ جتنا معاشرہ اور ملک ترقی کرتا ہے اتنا ہی اُس کی قوم باشعور باعمل اور باکردار ہوتی ہے ۔۔۔ مگر یہ کیسی قوم ہے کہ جہاں انٹرنیٹ اور میڈیا سائنس و ٹیکنالوجی ، یونیورسٹیاں اور ڈگریاں تو آسمان سے باتیں کرنے لگیں مگر قوم اور ملک میں معاشی، معاشرتی، انسانی اور مذہبی و اخلاقی ابتری آتی جا رہی ہے۔ تنزلی کا یہ کون سا سفر ہے جو کہ ترقی کے شانوں پہ جاری ہے۔ یہ کون سی آزادی ہے جو قفس سے نکل کر بھی پابجولاں ہے ۔۔۔
2012ءکے سال کو کیا لکھیں ۔۔۔ سانحوں کا سال لکھیں ۔۔۔ عہدِ کربلا لکھیں یا سالِ آہ و فغاں لکھیں۔ اب جو 2013ءشروع ہوا تو دل پَر کٹے پرندے کی طرح کانپ رہا ہے کہ نجانے اب کی بار جب سال ختم ہو گا تو میرا قلم اس سال کو کیا عنوان دے گا۔ کیا ”صُبح نو“ لکھے گا کہ ”شبِ تاریک“ پھر بھی ان تمام حادثات زیست اور سانحوں کے بعد بھی اس وطن کا ہر فرد یہ کہتا ہے ....
وطنِ جاوداں کی بقا کے لیے
حاضر ہیں اپنی فنا کے لیے
قرضِ حرمت، تیرا ہمیں یاد ہے
سر خم،ہر اک سزا کے لیے