ہر سیاسی جماعت اقتدار میں ےہ لیکن احتساب صرف ہمارا کیا جاتا ہے: کائرہ
لاہور (وقائع نگار خصوصی + اپنے نامہ نگار سے) سپریم کورٹ بار کی جانب سے مقامی فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کے دوسرے سیشن میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمرالزمان کائرہ نے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خالد رانجھا کی تبدیلی کی بات سے وہ متفق ہیں پر انہیں شک ہے کہ اگلی دفعہ بھی حکومت ان کی ہی ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ آج سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات ایسے کیوں ہیں۔ یہ ملک جمہوری جدوجہد سے بنا کوئی تعویذ، خالی دعاﺅں یا ڈکٹیٹر کے کہنے پر نہیں بنا۔ قائد اعظمؒ کے جمہوری عمل سے پاکستان بنا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی ترقی کا عمل شروع ہی ہوا تھا کہ قائد اعظمؒ کا انتقال ہو گیا۔ وفاقی پارلیمانی نظام ختم کر کے مرکزیت قائم کر دی گئی۔ 1956ءکا آئین فرد واحد کی پیداوار ہے۔ بنگال کے رہنے والوں کا پاکستان بنانے میں اہم کردار تھا لیکن ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم علیحدہ نہیں ہوئے آزاد ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1973ءمیں چھوٹے بڑے صوبوں کو برابر بٹھا دیا گیا۔ جب آمر آئے تو انہوں نے اپنے گرد سیاستدان کھڑے کر لئے اور نام نہاد جمہوریت ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ آج مہنگائی، بے روز گاری اور لوڈ شیڈنگ کے مسائل سے انکار نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کس کی وجہ سے ہےں۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ 5 سال کیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر سیاسی جماعت حکومت میں ہے لیکن عوام ان سے نہیں پوچھتے صرف ہمارا احتساب کرتے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ ہمیں 2008 ءمیں ہی ملا تھا۔ اس وقت جب پاکستان ہمارے حوالے کیا گیا اس وقت پاکستان کیا تھا۔ ملک میں قحط کی کیفیت تھی۔ دہشت گردی تھی، دنیا سوچ رہی تھی کہ اگر ایٹمی پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا تو کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی تنہائی کا شکار پاکستان ہمیں ملا۔ کوئی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں تھا۔ ہر شہر میں دھماکے ہو رہے تھے۔ ہمیں وہ پاکستان ملا کہ جب فورسز وردی میں کوئٹہ جانے سے کتراتی تھیں۔ 2008ءمیں لوگ ہاتھ میں پیسے پکڑ کر ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے تھے لیکن آٹا نہیں ملتا تھا۔ کائرہ نے کہا کہ ان کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیںکہ جادو سے لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھاشا ڈیم، نیلم جہلم اور کوہالہ ڈیم کی بنیادیں رکھیں کوششیں کیں اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ میاں صاحب بھی کہتے ہیں کہ انہیں بھی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں 3 سال لگیں گے۔ پاکستان میں گیس کی کمی ہے لیکن یہ ہمارے آنے سے پہلے کی ہے۔ ہم نے عالمی طاقتوں کو ناراض کر کے ایران سے گیس معاہدہ کیا۔ بھارت کے ساتھ بھی معاہدہ کیا۔ ہم نے تعلقات بہتر بنائے تو ہمیں سکیورٹی رسک کہا گیا۔ ایل این جی امپورٹ کرنے کی کوشش کی تو ہم پر الزام تراشی شروع کر دی گئی۔ ہمیں عوام کے طعنے سننے کا شوق نہیں۔ کائرہ نے کہا ہم نے 18ویں ترمیم کے ذریعے اصلاحات کیں، صوبائی حکومتیں مرکز سے مضبوط ہیں۔ این ایف سی کے تحت تمام اختیارات صوبوں کو دے دئےے گئے اب اگر آٹا نہیں ملتا تو اس کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو اپنے لئے بہتر قیادت کا انتخاب کرنا چاہئے۔ ملک کے کسی بھی مسئلے کے لئے پیپلز پارٹی کو الزام دے دیا جاتا ہے۔ کائرہ نے کہا کہ سیاست پر حملہ ریاست پر حملہ ہے۔ تبدیلی انتخاب کے ذریعے ہوتی ہے دھاوا بول کر نہیں۔ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 8 ہزار کیس این آر او کی نذر ہو گئے ہیں۔ ملک کو ٹیکنوکریٹ لوٹتے ہیں، ہمارا ملک انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر سے بلاﺅں کو لا کر ہم نے فاٹا میں جمع کر دیا ہے۔ ہمیں امریکہ سے بات کرنا چاہئے، اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کر لے۔ معمر قذافی نے امریکہ سے معافی بھی مانگی تھی لیکن اسے معاف نہیں کیا گیا۔ ہمیں بندہ بن کر اپنی غلطی ماننا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہم فوج کے مخالف نہیں لیکن فوج کو حکومتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہئے۔ خدا کرے ہماری ایجنسیاں دنیا بھر سے بہتر ہو جائیں مگر ایجنسیوں کو سیست میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ انکی جیب میں کھوٹے سکے ہیں ان کھوٹے سکوں نے ملک تباہ کیا۔کئی سیاسی خاندان انگریز دور سے آج تک حکومت میں ہیں۔ ان ایور گرین درختوں کو کاٹنا ہو گا۔ ہمیں جیسی بھی جمہوریت ملی ہے اسے بچانا ہو گا جمہوریت پر ہونے والے حملے کو روکنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اگر جمہوریت کے خلاف بولنے والے کو نہ روکیں تو ان کی زبان کاٹ دی جائے۔ اچکزئی نے امن کی آشا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عاصمہ جہانگیر امن کی آشا کی بات کر رہی ہیں اگر امن کی آشا کی بات کرنی ہے تو یہ آشا کابل سے شروع کر کے دہلی تک جایا جائے پھر امن کی آشا کامیاب ہو گی، افغانستان نے ہمارا کیا بگاڑا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ ملک میں جمہوریت سے بھی بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے ان کی پارٹی اس کے خاتمے کےلئے ہر طرح کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ بشیر احمد بلور شہید نے اس مقصد کےلئے جان دی تاہم ان کا قوم سے اور سیاسی جماعتوں سے مطالبہ ہے کہ اب میدان عمل میں نکلیں اور دہشت گردوں کو مارنے کے ساتھ ان جگہوں پر بھی آپریشن کریں جہاں سے یہ دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی نے صدر مملکت سے کراچی میں ملاقات کر کے اسی مطالبے کو دہرایا ہے، اب تو فیصلے کا وقت ہے۔ جمہوریت کسی نے خیرات میں نہیں دی اس کےلئے پھانسیاں اور جدوجہد کی گئی ہے۔ اس جمہوریت میں وکلا تحریک کا بنیادی کردار رہا ہے۔ انہون نے کہا کہ اب کوئی بھی لانگ مارچ یا کسی اور طریقے سے جمہوریت پر شب خون نہیں مار سکے گا کیونکہ اب پنجاب بھی جمہوریت کا گڑھ ہے۔ مسلم لیگ (ق) کی طرف سے سینیٹر ڈاکٹرخالد رانجھا نے کہا کہ اصل مسئلہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوری سوچ ہے۔ جمہوری سوچ کی بیداری اور استحکام بہت ضروری ہے تاکہ ہر سیاسی قوت اپنی شکست کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرے۔ جمہوری سوچ پیدا کئے بغیر جمہوریت کا نفاذ ہی ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ایسے امیدواروں کو سامنے لائیں جن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ ان پر کوئی آئینی یا قانونی قدغن نہ ہو۔ انہوں نے سیاسی کلچر میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے والے رواجات کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے شفقت محمود نے کہا کہ مختلف اطراف سے جمہوریت کے بارے میں خدشات ظاہر کئے جانے کے موقع پر جمہوریت کی حمائت میں اکٹھے ہونا نہایت خوش آئند ہے۔ اس کو انتہائی اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ تحریک انصاف انتہائی مضبوطی سے آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہے۔ ان کی پارٹی انتخابات کے التوا اور جمہوریت میں کسی بھی طرح کا خلل ڈالنے کے خلاف ہے۔ جمہوریت کے مسائل بھی ہیں اور جمہوری حکومت عوامی مسائل حل بھی نہیں کر سکی مگر اس بات کا بھی حل جمہوریت میں ہے۔ پاکستان بار کونسل کے ممبر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت آئندہ انتخابی عمل سے بڑے تدبر کے ساتھ گذرے۔ وکلا برادری ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی مضبوطی کےلئے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کے ساتھ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر شہرام سرور نے کہا کہ ملک میں کسی بھی طرح کے لانگ مارچ کے بارے میں کوئی خدشات نہیں لیکن اگر اس کے پیچھے اپنے مقاصد رکھنے والی قوتیں ہوں تو پھر عوام میں شکوک جنم لیتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر مصطفی لاکھانی نے کہا کہ وہ لانگ مارچ کی مذمت کرتے ہیں۔ بلوچستان ہائیکورٹ بار کے صدر ظہور شوانی نے کہا کہ ماضی میں منعقدہ کانفرنسز کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ بلوچستان میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ تقریب کے آخر میں پشاور میں خودکش حملہ کے دوران خیبر پی کے کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور اور دیگر جاںبحق ہونے والوں کی مغفرت کے لئے دعا مانگی گئی۔