الطاف حسین کا الزام اور تاریخی حقائق
ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پاکستان کی سیاست میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے انہوں نے سیاست پر ڈرون حملہ کرنے کا اعلان کیا جس کے بارے میں خوب قیاس آرائیاں کی گئیں۔ الطاف حسین کا ڈرون حملہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا ہی ثابت ہوا۔ پاکستان میں جب سے دوہری شہریت کا مسئلہ اُٹھا ہے اور سپریم کورٹ نے اراکین اسمبلی کی دہری شہریت کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا ہے الطاف حسین بڑے مضطرب نظر آتے ہیں۔ ان کا اضطراب اور بے چینی اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے قائداعظم کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کی مگر ان کا فائر بری طرح مس ہوا۔ انہوں نے تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی کہ جس طرح خود انہوں نے برطانوی شہریت کا حلف اُٹھاتے ہوئے ملکہ برطانیہ کے ساتھ وفاداری کا اظہار کیا اسی طرح قائداعظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اُٹھاتے ہوئے برطانیہ کے بادشاہ سے وفاداری کا اظہار کیا۔ الطاف حسین نے اپنے خطاب میں گورنر جنرل کے خطاب کا جو متن پڑھ کر سنایا اس میں بھی انہوں نے ڈنڈی ماری اور عوام کو مس گائیڈ کرنے کی کوشش کی۔ قائداعظم کے کسی عمل یا تقریر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اور تاریخی تناظر کو پوشیدہ رکھ کر پیش کرنا اور اس کی توضیح کرنا تاریخ کے حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ الطاف حسین نے قائداعظم کے حلف کا ایک حصہ پڑھاجبکہ پہلے حصے کو خفیہ رکھا۔میں نے چونکہ قائداعظم پر تحقیقی کام کیا ہے لہذا پوری دیانتداری کے ساتھ تاریخ کا پورا سچ نوائے وقت کے قارئین کے سامنے رکھتا ہوں۔
جب انگریزوں نے ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم اور آزاد کرنے کا فیصلہ کرلیا تو برطانوی پارلیمنٹ میں انڈین انڈی پنڈینس ایکٹ 1947ءمنظور کیا گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کا اقتدار منتقل کیا گیا۔ ہندوستان کے آخری وائسرے لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کی خواہش اور توقع تھی کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ گورنر جنرل ہوں گے۔ ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ مسلم لیگ کے کئی رہنما لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر جنرل تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے۔ سردار شوکت حیات نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ نواب اسماعیل ، نواب آف بھوپال اور سردار عبدالرب نشتر ماﺅنٹ بیٹن کے مشترکہ گورنر جنرل بننے کے حق میں تھے۔
[The Nation that Lost its Soul P169]
برطانیہ کا تاثر یہی تھا کہ ماﺅنٹ بیٹن برطانیہ کے نمائندے اور دونوں آزاد ریاستوں کے مشترکہ گورنر جنرل ہوں گے لہذا حلف کا متن اسی تاثر کے پیش نظر تیار کیا گیا۔ قائداعظم نے اپنے وژن کے مطابق لارڈ ماﺅنٹ بیٹن کو مشترکہ گورنر قبول کرنے سے انکار کردیا اور پاکستان کا گورنر جنرل خود بننے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں رونما ہونے والے واقعات سے ثابت ہوا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔جب حلف اُٹھانے سے پہلے حلف کا متن ان کے سامنے رکھا گیا تو قائداعظم نے اس متن کے مطابق حلف اُٹھانے سے انکار کردیا اور حلف کے متن میں اپنے ہاتھ سے تبدیلی کی۔ برطانوی حلف نامہ کے مطابق یہ الفاظ شامل تھے۔
"Affirm True Faith and Allegiance to his Majesty"
ترجمہ: ”ہز میجسٹی کے ساتھ سچی فرمانبرداری اور اطاعت کا حلفیہ اقرارکرتا ہوں“۔ قائداعظم نے اس جملہ کو ہز میجسٹی کے بجائے ”آئین پاکستان“ کے ساتھ جوڑ دیا۔ ترمیم کے بعد قائداعظم نے جو حلف اُٹھایا اس کے الفاظ یہ تھے۔
"I Muhammad Ali Jinnah, do selemmly affirm true allegiance to the constitution of Pakistan as by law established, and that I will be faithful to his Majesty King George the sixth, His heirs and successors in the office of Governor General of Pakistan"
ترجمہ:۔”میں محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے قانون کے تحت وجود میں آنے والے آئین پاکستان سے سچی فرمانبرداری اور اطاعت کا حلفیہ اقرارکرتا ہوں اور یہ کہ میں ذی وقار بادشاہ ششم، اُس کے وارثوں اور جانشینوں کے ساتھ مخلص رہوں گا“۔[قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل صفحہ نمبر52]
اس حلف کے مطابق قائداعظم نے آئین پاکستان (انڈیا ایکٹ 1935ءجسے دستور ساز اسمبلی نے عبوری آئین کے طور پر منطور کیا) کے ساتھ اپنی "Allegiance"یعنی فرمانبرداری اور اطاعت کا اظہار کیا اور بادشاہ کے لیے "Faithfull" یعنی مخلص ہونے کا لفظ استعمال کیا جو ان کی آئینی اور قانونی مجبوری تھی۔
الطاف حسین کی یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ قائداعظم کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھا۔ برٹش انڈیا کے تمام شہری برطانوی (Subject)یعنی رعایا تھے۔ برطانوی شہنشاہ کی تصویریں سرکاری دستاویزات اور سکوں و سٹیمپ وغیرہ پر شائع ہوتی تھیں۔ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصہ جاری رہا۔ الطاف حسین اپنے آپ کو محسن پاکستان سے ملانے کی کوشش نہ کریں ”چہ نسبت خاک رابا عالم پاک“ قائداعظم اگر مسلمانوں کو ہندوﺅں کی سیاسی اور معاشی بالادستی سے نجات نہ دلاتے تو الطاف حسین جیسے لوگ بھارت نہ جانے کیا ہوتے۔ الطاف حسین اپنے وطن سے چلے گئے اور برطانوی شہریت حاصل کرنے کے لیے ملکہ کے ساتھ ©"True Allegiance" یعنی ”سچی فرمانبرداری اور اطاعت“ کا حلف اُٹھایا جبکہ ان کے پاس پاکستان کی شہریت موجود تھی اور وہ دوہری شہریت کے بغیر "Permanent Resident" مستقل رہائشی کے طور پر بھی برطانیہ میں قیام کرسکتے تھے مگر انہوں نے عوامی رہنما ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری تقسیم کردی۔
تاریخ کو مسخ کرکے اور قائداعظم کی توہین کرکے پاکستانیوں کے جذبات مجروح نہ کریں۔ قائداعظم پاکستان کے کروڑوں شہریوں کے ہیرو ہیں اور قیامت تک ہیرو رہیں گے۔