حکومت عوامی مسائل فوراً حل کرے
دنیا کے ہر ملک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہوتے ہیں، ہر حکومت عوامی نوعیت کے فوری مسائل کا فوری حل پیش کرکے ثابت کرتی ہے کہ عوام نے انہیں ووٹ دے کر کوئی غلطی نہیں کی ہے لیکن اگر آج کل پاکستان کے مسائل کا تجزیہ کیا جائے تو حیرت ہے کہ فوری فیصلوں کے بجائے ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ اب کوئٹہ میں جو اندوہناک ”واقعہ“ ہوا ہے، اس کے نتیجہ میں جس طرح متاثرین سڑکوں پر بیٹھ گئے ہیں، انہیں ٹی وی پر دیکھ کر پوری قوم حیران و پریشان ہے کہ حکمرانوں نے ایک مسئلہ ہر حال میں حل کرنا ہے تو پھر فوری حل طلب مسائل کے حل میں دیر کا جواز کیا ہے؟ کیا حکومت نہیں جانتی کہ صرف اس کی کمزور قوت فیصلہ کی وجہ سے پورا پاکستان سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔
دوسری طرف لانگ مارچ بھی شروع ہوچکا ہے، حکمران خود تو اسلام آباد چھوڑ کر دوسرے شہروں میں چلے گئے ہیں لیکن کیا انہیں احساس ہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی اور سٹیک ہولڈر کی مشاورت کے اسلام آباد کے شہری کنٹینر سٹی کی تعمیر پر کتنے پریشان ہیں۔ پہلے پیپر کے روز بھی چھٹی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اتوار کو کہا گیا کہ اسلام آباد میں نظام زندگی معمول کے مطابق چلے گا۔ کیسے، یہ صرف وزیر داخلہ ہی بتا سکتے ہیں۔ دوسری طرف جو درجنوں کنٹینرز جمع کئے گئے ہیں، وہ سب کے سب ہر قسم کی اشیاءسے بھرے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے کنٹینرز پر قبضہ کرنے سے پہلے یہ بھی چیک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کے اندر کیا کچھ ہے۔ کچھ کنٹینرز کے اندر یقینا حساس نوعیت کی اشیاءموجود ہیں جو کسی وجہ سے بھی حکومت اور عوام دونوں کیلئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم خود تو کوئٹہ گئے ہیں لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے فوری طور پر مسئلہ حل کرنے کیلئے سٹیک ہولڈرز سے فوری ملاقات کرکے اہم فیصلوں کا فوری اعلان نہیں کیا۔ وقتی طور پر کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا آئینی راستہ تو فوراً استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن گورنر راج کے لئے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ اس واقعہ پر اظہار افسوس کیلئے مسلم لیگ (ن) کے لیڈر میاں نوازشریف منگل کو کوئٹہ پہنچ رہے ہیں اور پیر کے روز لاہور کی کچھ مارکیٹوں نے اس واقعہ پر بطور احتجاج اپنی دکانیں بند رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔
فارسی میں مشہور ہے کہ ”تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود۔“
یعنی اگر سانپ کے ڈسے ہوئے انسان کا فوری علاج کرنے کے بجائے اس کی دوا لینے کیلئے کسی کو عراق بھیج دیا جائے تو سانپ کا ڈسا ہوا تو مر جائے گا۔ حکومت معاملات درست کرنے میں دیر نہ کرے ورنہ پلوں کے نیچے سے صرف پانی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بہہ جائے گا۔
ادھر مصر میں سابق صدر حسنی مبارک پر مظاہرین کی ہلاکت کا نیا کیس کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت صدر حسنی مبارک اقتدار میں تھے جب وکی لیکس نے خفیہ دستاویزات کے ذریعہ سے یہ راز فاش کیا تھا کہ 2008ءمیں منصوبہ بن چکا ہے کہ 2011ءمیں صدر حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے گا۔ حسنی مبارک اور اس کے رفقاءنے اتنے اہم منصوبے کی خبر کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی اور میدان التحریر کی تحریک نے اسے واقعی اقتدار سے الگ کر دیا۔
آخر میں ایک تذکرہ امریکہ میں پھیلنے والے فلو کا ہے، جس نے 40 ہزار سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے اور یہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کچھ اموات بھی واقعہ ہوچکی ہیں، صرف چند ریاستیں اس سے محفوظ ہیں۔