بلوچستان حکومت کی برطرفی‘ گورنر راج کا نفاذ اور امن و امان کی بحالی کے تقاضے....کیا اب حکومتی رٹ تسلیم ہو پائے گی؟
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے آئین کی دفعہ 234 کے تحت بھجوائی گئی سمری پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط ثبت ہونے کے ساتھ ہی بلوچستان میں گورنر راج نافذ ہو گیا ہے اور تمام انتظامی اختیارات گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی اور بلوچستان اسمبلی کے قانون سازی کے اختیارات پارلیمنٹ کو تفویض ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم نے اتوار کے روز کوئٹہ کا ہنگامی دورہ کرکے جمعرات کے خودکش دھماکوں میں ایک سو سے زائد انسانی ہلاکتوں پر مرحومین کے لواحقین اور ہزارہ کمیونٹی کے قائدین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور بلوچستان میں امن و امان کے قیام کیلئے گورنر ہاﺅس بلوچستان میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے گورنر راج‘ ایمرجنسی کے نفاذ اور فوج کی خدمات حاصل کرنے سمیت مختلف آپشنز پر غور کیا اور طویل مشاورت کے بعد اتوار کی شب بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی سمری صدر مملکت کو بھجوا دی جبکہ بم دھماکوں میں جاں بحق ہونیوالے 86 افراد کی میتیں سامنے رکھ کر مسلسل تین روز تک احتجاج کرنیوالے ہزارہ کمیونٹی کے سینکڑوں ارکان بشمول خواتین اور بچوں نے گورنر راج کی سمری پر صدر کے دستخط ہونے کے بعد اپنا دھرنا ختم کر دیا۔
بلوچستان‘ کراچی‘ خیبر پی کے اور ملک کے دیگر علاقوں میں موجودہ حکمرانوں کے پورے عرصہ اقتدار کے دوران جاری لاقانونیت اور امن و امان کی بدحالی پر حکمرانوں کی بے حسی اور بے بسی اگرچہ پہلے بھی کئی مواقع پر نظرآتی رہی ہے مگر بلوچستان کے گزشتہ ہفتے کے سانحہ پر حکمرانوں کے ٹس سے مس نہ ہونے اور ٹھٹھرتی سردی میں مسلسل تین روز تک 86 میتیں سامنے رکھ کر متاثرین سانحہ¿ کوئٹہ کی جانب سے دھرنا دینے پر بھی وفاقی اور صوبائی حکمرانوں نے بے نیازی کا مظاہرہ کرکے اپنی گورننس پر جو دھبہ لگایا‘ وہ حکومتی سیاسی تاریخ میں یقیناً سیاہ حروف کے ساتھ لکھا جائیگا۔ ویسے تو حکومت نے اپنے پورے عرصہ¿ اقتدار کے دوران شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی آئینی ذمہ داری کی جانب آنکھ بند کئے رکھی ہے جبکہ حکومت کے بعض اپنے اقدامات اور فیصلے بھی ملک میں بدامنی‘ لاقانونیت اور دہشت گردی کے فروغ کا باعث بنتے رہے ہیں تاہم بلوچستان میں نواب اسلم رئیسانی کی مخلوط حکومت نے حکومتی بے نیازی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے۔ بلوچستان میں جاری ہزارہ کمیونٹی اور پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ‘ تخریب کاری‘ دہشت گردی اور قومی ًپرحم تک کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر تمام قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تشویش کا اظہار مسلسل کیا جاتا رہا اور سپریم کورٹ نے بھی لاپتہ افراد کے مقدمات کی کوئٹہ میں سماعت کے دوران متعدد مواقع پر بلوچستان کی بدامنی اور منافرت کی فضا کو سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ جیسے حالات سے تعبیر کرتے ہوئے حکومت کو اصلاح احوال کی ہدایت کی مگر عدالت عظمیٰ کے ان احکام کو بھی نہ صرف ہوا میں اڑا دیا گیا بلکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے بلوچستان اسمبلی میں اپنے حق میں اعتماد کی قرارداد منظور کرالی اور پھر انکی حکومت کو جائز تسلیم نہ کرنیوالے سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی کو بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرا دیا گیا۔ حکومتی من مانیوں کی اس سے بدتر مثال اور کوئی نہیں ہو سکتی چنانچہ اس حکمرانی میں شہریوں کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت کیسے مل سکتی تھی؟ نتیجتاً بلوچستان کے حالات دگرگوں ہوتے گئے اور بالآخر جمعرات کے سانحہ¿ کوئٹہ پر منتج ہوئے۔ مگر وزیراعلیٰ بلوچستان کی بے نیازی کا یہ عالم رہا کہ انہوں نے اتنے بڑے سانحہ کے باوجود اپنا بیرونی دورہ مختصر کرکے ملک واپس آنا ضروری نہیں سمجھا جن کے بارے میں اب یہ اطلاعات ملی ہیں کہ وہ کیمرج یونیورسٹی میں اپنے کسی عزیز کو داخل کرانے گئے تھے اور وہاں ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بدستور قیام پذیر ہیں۔
اس حکومتی بے نیازی کے ردعمل میں ہی ہزارہ کمیونٹی کے لوگ اپنے پیاروں کی نعشیں سڑک پر رکھ کر احتجاجی مظاہرہ کرنے اور دھرنا دینے پر مجبور ہوئے جس پر صوبائی حکومت تو کجا‘ دو روز تک وفاقی حکمران بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اور جب احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ ملک بھر میں شروع ہوا تو وفاقی حکومت کو ہوش آئی اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف‘ وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ کے ہمراہ کوئٹہ پہنچ کر متاثرین سانحہ کوئٹہ کی طفل تسلیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اگر مظاہرین نعشیں سامنے رکھ کر دھرناجاری رکھنے کا الٹی میٹم نہ دیتے تو شاید آج بھی بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی نوبت نہ آتی‘ تاہم اب صوبے میں گورنر راج نافذ ہوا ہے تو بھی امن و امان کی بحالی اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمہ کے معاملہ میں موثر حکومتی اقدامات کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کیونکہ جو گورنر بلوچستان میںقیام امن کے حوالے سے حکومتی ناکامی کا اعتراف کر چکے ہیں۔ وہ اب گورنر راج کے ذریعے امن و امان کی بحالی کو کیسے یقینی بنا پائیں گے۔ یقیناً اسی تناظر میں ہزارہ کمیونٹی کے قائدین کی جانب سے آج بھی کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا تقاضاکیا جا رہا ہے جبکہ حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین تو پورے بلوچستان کو فوج کے حوالے کرنے کا تقاضا کر چکے ہیں۔
بے شک آئین کی دفعہ 245 کے تحت گورنر کو امن و امان کی بحالی میں معاونت کیلئے فوج کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ فرنٹیئر کور کو بلوچستان میں پہلے ہی پولیس کے اختیارات دیئے جا چکے ہیں۔ اسکے باوجود لوگ بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ سمیت امن و امان کی بحالی کے حکومتی اقدامات پر مطمئن نہیں تو حکمرانوں کو اپنے معاملات کا خود ہی جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کن وجوہ کی بنیاد پر دہشت گردی اور تخریب کاری کے خاتمہ اور امن و امان کے قیام میں ناکام رہے ہیں۔ آئین کی دفعہ 234 کے تحت اب بلوچستان میں گورنر راج کی پارلیمنٹ سے توثیق تک عملاً صدارتی راج رہے گا‘ جس میں بلوچستان اسمبلی کے قانون سازی کے اختیارات بھی صدر مملکت کے تابع ہونگے۔ اگر اب بھی بلوچستان میں بدامنی پر کنٹرول نہ کیا جا سکا اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رہا تو یہ صورتحال صوبائی ہی نہیں‘ وفاقی حکومت کی ناکامی پر بھی مہرتصدیق ثبت کردیگی اس لئے محض گورنر راج کا نفاذ بلوچستان کے گھمبیر مسائل کا حل نہیں کیونکہ اصل خرابی تو حکومتی بے نیازی کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ خرابی کی جڑ برقرار رکھ کر اصلاحِ احوال کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے۔ حکمران کم از کم اپنے حلیفوں کی آواز پر ہی کان دھریں اور بلوچستان میں امن و امان کی بحالی کی ذمہ داری کلی طور پر فوج کو سونپ دیں جس کی آئین میں گنجائش بھی موجود ہے۔ اگر گورنر راج بھی حالات کو سنبھالا نہ دے سکا تو امور حکومت و مملکت کی انجام دہی میں ناکامی صرف بلوچستان نہیں‘ پورے ملک میں آئین کی دفعہ 245 کو بروئے کار لانے کی متقاضی ہو جائیگی۔