• news

اقبال قاسم صاحب ۔۔۔ کیسے ہیں؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے چیف سلیکٹر اقبال قاسم ایک محنتی‘ ایماندار اور نیک انسان ہیں۔ کرکٹ کے حلقوں میں اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ نرم مزاجی اور دلائل کے ذریعے حریفوں اور حلیفوں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعجاز بٹ کے دور میں بھی وہ چیف سلیکٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد انہوں نے استعفیٰ دیکر اپنا اخلاقی فرض پورا کیا تھا۔ ہمارے ہاں عہدوں پر براجمان لوگوں سے ایسی اخلاقی جرات کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن اقبال قاسم نے اس روایت کو نبھایا۔ انہوں نے ذکاءاشرف کے دور میں ایک مرتبہ پھر عہدہ سنبھالا ہے۔ اس مدت میں ان کی سلیکشن پر سب سے زیادہ تنقید یوں کی جاتی ہے کہ وہ سب کو خوش رکھ کر ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اقبال قاسم کو اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ ان سے اچھی خاصی ملاقات ہے۔ بنیادی طور پر وہ ”نوائے وقتیے“ بھی ہیں اور وقت نیوز کے کھیلوں کے پروگرام میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ان کی ایمانداری پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی لیکن کبھی کبھار ان کی سلیکشن کمیٹی کے فیصلوں پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ تنقیدی توپخانوں کو خاموش کرانے کے لئے درمیانی راستہ ضرور اختیار کرتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ سب کو خوش رکھنے کا فارمولا کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ایک کسان اپنے بیٹے کے ساتھ گدھے پر بوریاں لادے خود گدھے پر سواری کرتے ہوئے جا رہا تھا اور اس کا بیٹا پیدل چل رہا تھا لوگوں نے کہا کہ عجیب آدمی ہے۔ شرم نہیں آتی کہ بیٹا پیدل چل رہا ہے اور خود پیدل چلنے لگا۔ اب راہگیروں نے بیٹے کو بدتمیز کہنا شروع کر دیا تو دونوں باپ بیٹا گدھے پر سوار ہو گئے تو ساتھ چلنے والے کسان اور اس کے بیٹے کو ظالم کہنے لگے کہ جانور پر ظلم کر رہے ہیں۔ یعنی کسی بھی صورت میں آپ سب کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا آج کل اقبال قاسم اور ان کی سلیکشن کمیٹی کو ہے۔ عدنان اکمل کو ڈراپ کرکے سرفراز احمد کو شامل کیا ہے تو تنقید ہو رہی ہے۔ ایوب ڈوگر کی جگہ فیصل اقبال کو ٹیم کا حصہ بنایا ہے تو سلیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ماہرین کرکٹ اعزاز چیمہ‘ وہاب ریاض کو سائیڈ لائن کئے جانے پر بھی حیران ہیں۔
 سلیکشن کمیٹی کی کوچ اور کپتان کے ساتھ اختلافات کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہو رہی ہے۔ جس طریقے سے سرفراز احمد کو شامل دورہ جنوبی افریقہ کے لئے ٹیم کا حصہ بنایا گیا اس حوالے سے بھی شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔ گزشتہ روز کے اخبارات میں ٹوئنٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کپتان نے بھی شکوہ کیا ہے کہ انہیں ٹیسٹ اور ون ڈے کے لئے سلیکشن کے لئے مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے اعلان کردہ ٹیم میں ایک فاسٹ با¶لر کی کمی کا ذکر بھی کیا اور ساتھ ہی سلیکشن کمیٹی کے فیصلے کے احترام کا بھی ذکر کر دیا۔ 
گزشتہ روز ہی نوائے وقت میں اقبال قاسم کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ٹیم انتظامیہ کے ساتھ اختلافات کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ اپنا کام ذمہ داری سے کرتے ہیں اور سلیکشن کے معاملے میں پرفیکشن کہیں نہیں ہوتی۔ ہر جگہ تنقید ہوتی ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا انتخاب کیاجائے۔ کھلاڑیوں کی حتمی فہرست کی تیاری بہرحال سلیکشن کمیٹی کی ذمہ داری ہے اور وہ اس میں مکمل آزاد اور بااختیار ہے۔ تاہم اس معاملے میں تمام کھلاڑیوں کے ساتھ یکساں سلوک‘ ناکام کھلاڑیوں کو بار بار موقع دینے اور ایک دو میچز کے بعد پلیئرز کو گمشدہ بنانے سے سلیکشن کمیٹی کی حیثیت مشکوک ہوتی ہے۔ ہماری نیک تمنائیں سلیکشن کمیٹی کے ساتھ ہیں کہ وہ بھی دلیرانہ فیصلے کرے اور حقدار کھلاڑیوں کو ان کا حق دلائے۔ اقبال قاسم پر اگر سب کو خوش رکھنے والی پالیسی کی وجہ سے تنقید ہوتی ہے تو وہ اپنے اس طرز عمل پر غور کریں۔ انہیں یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ سب کو خوش نہیں رکھا جا سکتا اور ہمارے ہاں تو سب کو خوش رکھنے والے شخص کو کمزور اور دوسروں کے فیصلوں کا محتاج سمجھا جاتا ہے۔ کیا اقبال قاسم ایسے ہیں؟ ہماری ذاتی رائے میں وہ ایسے نہیں ہیں کیونکہ ایسے دور میں جب دولت جمع کرنے کی دوڑ ہے وہ کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر کی حیثیت سے اعزازی طورپر کام کر رہے ہیںان پر تنقید کرنیوالے انہی کے قبیلے کے افراد ہیں جو ان کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں یا پھر ان کے جونیئر ہیں ناقدین کو مثبت جواب دینے کیلئے اقبال قاسم کو سلیکشن کے معاملات میں زیادہ بہتر اور موثر پالیسی ترتیب دینا ہوگی ۔

ای پیپر-دی نیشن