دھرنے میں وزیروں کی پٹائی اور ڈھٹائی
اس بات سے اندازہ کریں کہ سانحہ بلوچستان کے دھرنے سارے ملک میں پھیل گئے۔ کراچی کے وزیروں کی مظاہرین سے پٹائی اور ڈھٹائی کیا ظاہر کرتی ہے۔ مگر حکمرانوں کو شرم نہیں آتی۔ سارے پاکستان میں لوگ باہر نکل آئے۔ اسی طرح دھرنا دیا جیسے اپنے پیاروں کی لاشوں کے سرہانے کوئٹہ کے لوگوں، عورتوں بچوں نے دھرنا دیا۔ یہ لاشوں کا احتجاج تھا اور چلتی پھرتی لاشوں کا۔ ہم زندہ کہاں ہیں صرف شرمندہ ہیں مگر حکمران روتے سسکتے ہوئے بے بس بے کس بے چارے لوگوں سے ڈر گئے اور ان کی ساری باتیں مان لیں۔ ملتان، پشاور، فیصل آباد اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں دھرنے ہوئے۔ کراچی اور لاہور میں دھرنے کے دوران جو واقعات ہوئے وہ حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہیں۔ ان کے خلاف لوگوں کے جذبات ایک کھلی نشانی ہے مگر حکمران سبق نہیں سیکھتے اور نہ عبرت پکڑتے ہیں۔
مجلس وحدت المسلمین نے کراچی میں کئی جگہوں پر دھرنا دیا۔ ایک دھرنا کراچی کے ایوان صدر بلاول ہاﺅس کے سامنے دیا گیا۔ وہ سب سے انوکھا دھرنا تھا۔ وہاں علامہ طالب جوہری نے ولولہ انگیز خطاب کیا۔ دہشت گردی یہ ہے کہ کوئی چھوٹا موٹا حکمران بھی مقتولوں کے سرہانے رونے والوں کے پاس نہیں پہنچا وہ ظالموں قاتلوں کے ساتھ ہیں۔ خلیل جبران نے کہا تھا ”مقتول کے لئے یہ اعزاز کم نہیں کہ وہ قاتل نہیں۔ مگر کیا مقتول کے لئے غریب ہونا شرط ہے؟ مقتول مظلوم جیت گئے جیت کبھی ظالموں، قاتلوں، لٹیروں، غنڈوں، بدکرداروں، بدمعاشوں، وزیر شذیروں اور حکمرانوں کی نہیں ہوتی۔ آخری فتح امام مظلوم شہید کربلا حضرت حسینؓ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کی ہوتی ہے۔
کوئٹہ میں تو کوئی ایک بھی وزیر مرنے والوں کی لاشوں کے اشک آلود اور خون آلود ماحول میں نہ پہنچا۔ کراچی کے دھرنے میں دو ”شوخے“ وزیر شرجیل میمن اور پیر مظہرالحق مظاہرین کے پاس پہنچ گئے یعنی ان کے ہتھے چڑھ گئے۔ یہ سیاسی کارروائی شاید بلکہ یقیناً صدر زرداری کی ہدایت پر کی گئی ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے دونوں نے صدر زرداری کے حضور اپنے نمبر بنانے کے لئے یہ کام کیا ہو۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے لوگوں کو ذلت اور اذیت کی انتہا پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے بلکہ اب یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا بن گیا ہے۔ غصے کا یہ سیلاب کرپٹ ظالم اور بے حس حکمرانوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔
شرجیل میمن ٹی وی چینل پر نرسوں سے ایک جیسے ماحول میں بار بار دہرائی جانے والی ایک گفتگو میں بڑے زعم اور غرور سے جھوٹ بولتا تھا۔ پیر مظہرالحق کی نالائقیوں کی کہانیاں میڈیا پر تمسخر کا باعث بنتی تھیں۔ دونوں وزیروں کو مشتعل مظاہرین نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ میں تشدد کے خلاف ہوں۔ مگر مجبوروں کے غصے کے حق میں ہوں۔ وزیروں کو گھونسے لاتیں اور ٹھڈے مارے گئے۔ ان کے کپڑے پھاڑ دئیے گئے گریباں چاک کئے گئے۔ میں نے ٹی وی چینلز پر ان دونوں کو مار کھاتے دیکھا اور پھر اپنی گاڑیوں میں گھس کر بھاگتے ہوئے بھی دیکھا۔ یہ حکمران ہیں؟ یہ وزیر ہیں؟ ابھی کچھ دنوں میں اس طرح کے دوسرے وزیروں کے ساتھ اس سے بھی برا ہو گا۔ یہ وقت ہمیشہ ہمارے حکمرانوں پر آتا ہے۔ یہ لوگ منہ چھپاتے ہوئے گھروں میں قید ہو جاتے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے؟ اس ”جمہوریت“ کو بچانے کے لئے کئی لوگ چیخ چلا رہے ہیں۔ جمہوریت کو بچانے کا اب والا طریقہ یہ ہے کہ اس حکومت سے جان چھڑا لی جائے۔ یہ اس حکومت کے حق میں بھی بہتر ہے۔ دونوں ذلیل و خوار ہونے والے وزیروں کے گارڈ بھی بھاگ گئے۔ دونوں وزیروں کو لوگوں نے بچانے کی کوشش کی اور بھاگ جانے کے لئے تعاون کیا۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ مسئلہ کوئٹہ کا تھا تو کراچی میں خواہ مخواہ ایک صورتحال بنانے کی کوشش کی گئی۔ کوئٹہ میں اپوزیشن کے لوگ تو گئے مگر کسی حکومتی سرکاری آدمی کو جرات اور توفیق نہ ہوئی۔ اب شرجیل میمن اور پیر مظہرالحق کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ یہ وزارت ان کے کسی کام کی نہیں ویسے بھی اب چند دن رہ گئے ہیں۔ مگر انہیں ایک گھنٹے کا اقتدار بھی عزیز ہے خواہ اس تھوڑی سی دیر میں انہیں کتنا ہی ذلیل ہونا پڑے۔ اس کے بعد وزیروں کی ڈھٹائی جاری رہی تو پھر عزت بے عزتی میں فرق بالکل ختم ہو جائے گا۔
اس کے بعد ایک قدم جو وزیروں کی دلجوئی کے لئے اٹھایا گیا ہے۔ وہ بہت شرمناک ہے۔ کلفٹن کراچی کے ایس ایس پی کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایس ایس پی کا نام جاوید میر ہے۔ اس واقعے میں اس کی کیا نامہربانی سامنے آئی کہ اسے بے جا غصے کا شکار بنایا گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں ”ڈگا کھوتی توں تے غصہ کمہار پر“ اسلام آباد دھرنے میں رحمان ملک کا حال کراچی کے وزیروں سے مختلف نہیں۔ ایس ایس پی کلفٹن بنانے کے لئے جاوید کو کسی وزیر نے سفارش کی ہو گی۔ یہ کام بھی ڈرے ہوئے آدمی کا ردعمل ہے جو بڑی آسانی سے ردی عمل بن جاتا ہے۔
اس کے علاوہ لاہور میں ایسا واقعہ پیش آیا کوئٹہ سانحہ کے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لئے گورنر ہاﺅس لاہور کے سامنے دھرنا دیا گیا۔ وہاں گورنر پنجاب مخدوم صاحب کو باہر نکل کر مظاہرین کے پاس آنا چاہئے تھا۔ ان کے لئے سیاسی ورکر ارشاد بھٹی بہت اچھی باتیں کرتا ہے۔ برادرم عبدالقادر شاہین بھی ان کا مداح ہے۔ عبدالقادر شاہین ہی انہیں لے کے آ جاتے۔ یہاں بھی اپوزیشن پہنچی۔ مسلم لیگ کے سردار ذوالفقار کھوسہ، خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری مظاہرین کے پاس پہنچے۔ نواز شریف کوئٹہ جانے کا اعلان کرتے رہ گئے اور فیصلہ ہو گیا تو انہوں نے یہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ یہاں بھی ایک مشتعل آدمی نے احتجاج کیا کہ آپ اب آ گئے ہیں مگر خواجہ سعد رفیق نے تحمل اور دانائی سے یہ معاملہ حل کر لیا۔ سیاستدان کا یہی اسلوب ہوتا ہے کہ وہ مخالف صورتحال کو اپنے حق میں کر لے۔ زعیم قادری بھی ایک مخلص سیاسی کارکن ہے وہ خواجہ سعد رفیق کے رفیقوں میں سے ہے۔ یہ تینوں لوگ ایک گھنٹے تک دھرنے میں بیٹھے رہے۔ یعنی انہوں نے بھی دھرنا دیا۔ انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور سانحہ کوئٹہ کے لوگوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ سیاستدان وزیر بنتے ہیں تو بے ضمیر کیوں ہو جاتے ہیں۔ حکمرانی کی شرمندگی کو بدنامی کی تکمیل سے بچایا جائے۔ دھرنے میں شامل ہونے کے لئے دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق ہونا ضروری ہے۔ یہ وزیروں شذیروں کا کام نہیں۔ دھرتی اور دل دھرتی کو ملانے والے کہاں گئے
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمیں کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے