”کٹھ پتلی کے بارے میں بات وقت کا ضیاع ہے“: مشاورتی اجلاس نے طاہر القادری کو اہمیت نہ دی
لاہور (فرخ سعید خواجہ) مختلف سیاسی رہنما¶ں کے مشاورتی اجلاس میں لگ بھگ تمام سیاسی رہنما¶ں کی رائے تھی کہ موجودہ سیاسی نظام کو ڈی ریل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہئے ورنہ جمہوریت کا نوزائیدہ پودا مرجھا جائے گا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمیں مضبوط م¶قف اختیار کرنا چاہئے، یہ پیغام دینا چاہئے کہ ماورائے آئین کوئی اقدام ہوا تو ہم ملک کے ہر چوک کو تحریر سکوائر بنا دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن نے موجودہ الیکشن کمشن کے تحت فوری عام انتخابات کرانے پر زور دینے کے لئے کہا۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ خواتین، بچوں کو کھلے میدان میں بٹھانے والے بزدل لوگ جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی سازش کر رہے ہیں۔ ان کے جواب میں ہمیں بھی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اجلاس کے دوران ہی نماز ظہر کا وقفہ کیا گیا اور سب نے مولانا فضل الرحمن کی امامت میں نماز ظہر ادا کی۔ اسی دوران نماز عصر اور مغرب بھی آئیں تمام نمازوں کی امامت مولانا فضل الرحمن نے کرائی۔ قبل ازیں اجلاس کا آغاز احسن اقبال کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نعت شریف قاری زوار بہادر نے پڑھنے کی سعاردت حاصل کی۔ نماز ظہر کے بعد کھانے کا وقفہ کیا گیا جس میں مہمانوں کی تواضع بریانی، پالک گوشت، دیسی مرغی، حلیم، پاستا اور چائنیز کھانوں سے کی گئی۔ سویٹ ڈش میں سوجی کا حلوہ تھا جسے ”چوڈا پہلوان“ سے خصوصی طور پر تیار کرایا گیا تھا۔ تمام حاضرین نے ”حلوہ“ شوق سے کھایا بالخصوص مولوی حضرات نے حلوے کا بہت مزا لیا اور اسے کمال کا قرار دیا۔ مشاورتی اجلاس کی ایک اور اہم بات یہ تھی کہ اس میں کسی کی صدارت نہیں تھی، لگ بھگ تمام حاضرین نے پانچ سے پندرہ منٹ تک اظہار خیال کیا۔ مشترکہ اعلامیہ سینیٹر پرویز رشید نے اپنے معاونین کے ساتھ مل کر تیار کیا جسے چودھری نثار علی خاں نے پڑھ کر سنایا۔ محمود خان اچکزئی، شہباز شریف، شاہ اویس نورانی، اسحق ڈار اور خواجہ سعد رفیق نے اس میں ترامیم پیش کیں۔ محمود خان اچکزئی نے مسودے سے صدر زرداری سے استعفے کا مطالبہ نکالنے کے لئے کہا اور کہا کہ ان کی مدت صدارت یونہی ختم ہو رہی ہے، ان کی تائید اسحق ڈار نے کی چنانچہ زرداری سے استعفے کا مطالبہ نکال دیا گیا۔ مسودہ میں ترامیم شامل کر کے اسے دوبارہ ٹائپ کرایا گیا اور ایک مرتبہ پھر پڑھ کر سنایا گیا۔ اعلامہ میں دہشت گردی میں شیعہ حضرات کے قتل کا ذکر تھا جس پر مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی اور شاہ اویس نورانی نے کہا کہ شیعہ حضرات کے قتل سمیت دیگر فرقوں کے افراد کے قتل اور کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کی بھی مذمت ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جبر، دبا¶، دھونس کے ہتھکنڈے اور دہشت گردی کی ہر شکل قابل مذمت ہے چاہے ان کا استعمال کسی فرد کی طرف سے ہو، گروہ، جماعت، خود یا ریاست کی طرف سے ہو۔ مقررین نے ڈاکٹر طاہر القادری کو خاص اہمیت نہیں دی اور کہا کہ ”کٹھ پتلی“ کے بارے میں بات کرنا وقت کا ضیاع ہو گا۔