• news

انڈین ہاکی لیگ میں شرکت اہم یا خودداری؟

انڈین ہاکی لیگ میں شامل پاکستانی کھلاڑیوں کو بھارت کی انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا کے احتجاج کے بعد ایونٹ سے الگ کر دیا گیا ہے۔ پہلے کھلاڑیوں کو تاخیر سے ویزے جاری کئے گئے۔ بعد میں بھارت پہنچنے پر بھی کھلاڑیوں کو مسلسل ذہنی تشدد کا سامنا رہا۔ پاکستان کے 9 کھلاڑیوں میں محمود راشد فرید احمد، محمد توفیق اور عمران بٹ کو ممبئی، محمد رضوان جونیئر دہلی، کاشف شاہ پنجاب اور محمد عرفان، شفقت رسول کو رانچی کی ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا۔ یہ کھلاڑی بڑے ارمانوں کے ساتھ بھارت روانہ ہوئے تھے۔کئی حلقوں میں اس وقت بھی ان کی سیکورٹی اور بھارت میں موجودگی کے حوالے سے خدشات تھے کیونکہ اس ہمسایہ ملک میں جانے والا ہر پاکستانی ہر وقت خطرات میں گھرا رہتا ہے۔ اتوار کو ممبئی میں پریکٹس کے دوران انتہا پسند جماعت شیوسینا کے کارکن نعرے بازی کرتے ہوئے سٹیڈیم کی طرف بڑھے، پاکستانی کھلاڑیوں کے لئے یہ صورتحال سازگار نہ تھی اور یہ احتجاج صرف شیوسینا تک ہی محدود نہ رہا اس میں حکمران جماعت کے نمائندے بھی شامل ہوتے گئے۔ حالات اتنے بگڑ گئے کہ مہمانوں کو گھر بلا کر گھر سے واپس بھیجنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ بھارت کے اس فیصلے پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے بھارت میں دیگر ملکوں کے کھلاڑیوں کی سیکورٹی کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایک طرف پاکستانی کھلاڑیوں کو بھارت سے نکالا گیا ہے تو دوسری طرف ہاکی فیڈریشن اب بھی ہمسایہ ملک کے ساتھ دو طرفہ سیریز اور آئندہ ایڈیشن میں اپنے کھلاڑیوں کی شرکت کے لئے پرامید ہے یعنی ایک مرتبہ پھر دھوکہ کھانے کی تیاری ہے۔بھارت کے ساتھ تعلقات کے لئے ہمارے کھیلوں کے حکمران بِچھے چلے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم بھارت کا دورہ کرکے آئی ہے۔ پاکستانی ٹیم کے اس دورے سے بھارت کو مالی طور پر بہت فائدہ پہنچا۔ اس وقت چونکہ اپنا مفاد تھا، پیسہ آ رہا تھا۔ شیوسینا نے تو کرکٹ ٹیم کے دورہ بھارت کی بھی مخالفت کی تھی اس وقت انڈین حکومت کے اراکین بھی ملکی فائدے کے پیش نظر خاموش رہے۔ انڈین ہاکی لیگ میں چونکہ دنیا بھر کے کھلاڑی شرکت کر رہے ہیں اور پاکستانی کھلاڑیوں کی عدم شرکت سے ایونٹ کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے انڈین ہاکی لیگ کے منتظمین نے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کو ایونٹ سے الگ کرکے انتہا پسندوں کا ساتھ دیا ہے۔ بھارت کے سیاستدانوں مستقبل میں بھی تعلقات کو عوامی جذبات سے مشروط کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے عوامی جذبات کے ساتھ ساتھ قومی مفاد کو سامنے کیوں نہیں رکھتے۔ تصور کریں کوئی کہ بھارتی ٹیم پاکستان میں ہوتی اور یہاں اس قسم کے مظاہرے ہوتے تو کیا طوفان برپا ہوتا، بین الاقوامی میڈیا ہمارے بارے تمام برے اور سخت الفاظ استعمال کرتا۔ پاکستانی عوام نے ہمیشہ سخت اختلافات اور بنیادی مسائل کے باوجود بھارتیوں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہہ کر حق میزبانی ادا کیا ہے لیکن بھارت میں کبھی ہمارے کھلاڑیوں کی آمد کے اعزاز میں انہیں گولیاں مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے کبھی ”پچ“ اکھاڑ دی جاتی ہے تو کبھی سٹیڈیم کے باہر ان کے خلاف مظاہرے کئے جاتے ہیں اور انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پھر بھی دو طرفہ تعلقات کو ہم یکطرفہ کوششوں سے بہتر کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ہمیں بھی سخت اور برابری کا رویہ اپنانا ہو گا۔ کاش کہ ہمارے حکمران اور کھیلوں کی تنظیموں کے سربراہ بھی حالات و واقعات اور تاریخ کو مدنظر رکھ کر کوئی فیصلہ کریں۔ بہرحال پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ افسوسناک ہے لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہو گا کہ ہم اس واقعے سے کوئی سبق حاصل نہ کریں۔

ای پیپر-دی نیشن