حکومت‘ طاہر القادری مذاکرات کامیاب‘ دھرنا ختم ۔۔۔۔ شرکا جشن مناتے گھروں کو واپس
اسلام آباد (محمد نواز رضا / وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) 10 رکنی حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور ”اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن“ جاری کر دیا گیا۔ ڈیکلیریشن پر حکومت کی جانب سے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری، آغا مرتضی پویا نے دستخط کئے۔ صدر آصف علی زرداری نے معاہدے کی منظوری دے دی۔ جس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے پانچ روزہ لانگ مارچ اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا اور جشن مناتے ہوئے گھروں کو واپسی شروع کر دی۔ 4 نکاتی اسلام آباد ڈیکلیریشن کے تحت قومی اسمبلی 16 مارچ 2013ءسے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دی جائے گی جس کے تحت عام انتخابات 90 روز کے اندر منعقد ہو سکیں گے۔ امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدوار کی پری کلیرنس کے بغیر امیدوارکو انتخابی مہم شروع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کا فیصلہ الیکشن کمشن کرے گا دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان عوامی تحریک حکومتی اتحاد سے مکمل اتفاق رائے سے دو نام نگران وزیراعظم کے لئے تجویز کرے گی بعد ازاں آئینی طریقہ کار کے تحت نگران وزیراعظم کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا الیکشن کمشن کی تشکیل نو کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس سلسلے میں آئینی مشکلات ہیں آئینی ماہرین سے اس بارے میں مزید مشاورت کی جائے گی۔ اس سلسلے میں 27 جنوری 2013ء کو 12 بجے منہاج القرآن سیکرٹریٹ لاہور میں ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف فاروق ایچ نائیک اس سے قبل ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، فروغ نسیم، لطیف آفریدی، خالد رانجھا اور ہمایوں احسن سے مشاورت کرکے اجلاس میں رپورٹ پیش کریں گے۔ اجلاس منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں ہونگے۔ چوتھے نکتہ میں کہا گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے فیصلے پر 100 فیصد عملدرآمد ہوگا۔ سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ء کے فیصلہ کی روح کے مطابق عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ لانگ مارچ کے دوران فریقین کے خلاف درج مقدمات واپس لے لئے جائیں گے۔ انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ الیکشن کمشن کی اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن کی تیاری کے دوران حکومتی ٹیم کے رکن و وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ وزیراعظم کو لمحہ بہ لمحہ مذاکرات کی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہے اور ان سے معاہدے کے سلسلہ میں بار بار رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ ان مذاکرات میں چودھری شجاعت حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار نے ڈاکٹر طاہر القادری کو اپنے چار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ میں لچک پیدا کرنے پرآمادہ کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے تمام مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تاہم دونوں اطراف نے فیس سیونگ پر مبنی معاہدہ کر لیا۔ واضح رہے کہ چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ دھرنے میں ان کے ”بم پروف کنٹینر“ میں ان کے 4 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر مذاکرات کئے 10 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں وفاقی کابینہ کے سینئر رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے چیئرمین مخدوم امین فہیم، وفاقی وزراءسید خورشید شاہ، فاروق ایچ نائیک، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، قمر زمان کائرہ، سینیٹر افراسیاب خٹک، چودھری شجاعت حسین، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر عباس آفریدی شامل تھے۔ مذاکرات میں آغا مرتضی پویا نے ڈاکٹر طاہر القادری کی معاونت کی۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار حکومتی ٹیم نے پارلیمنٹ کے سامنے ڈاکٹر طاہر القادری سے ان کے بم پروف کنٹینر میں مذاکرات کے دو ادوار کئے۔ مذاکرات میں حصہ لینے والوں نے تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی امامت میں نماز مغرب کنٹینر میں ہی ادا کی۔ مذاکرات 4 بجے شام شروع ہوئے جو کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔ یہ اپنی نوعیت کے منفرد مذاکرات تھے جنہیں میڈیا اور مظاہرین کنٹینرز کے شیشے سے دیکھا جا سکتا تھا جونہی مذاکرات کا آغاز ہوا ڈاکٹر طاہر القادری نے کنٹینر ز کے پردے اٹھا دئیے مذاکرات میں مصروف رہنما واضح طور پر میڈیا کے کیمروں اور مظاہرین کو نظر آ رہے تھے۔ بات چیت کا ماحول انتہائی خوشگوار دوستانہ رہا تھا۔ جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کائرہ اور ڈاکٹر طاہر القادری کا آمنا سامنا ہوا تو ڈاکٹر طاہر القادری نے ان کے گزشتہ روز کے ریمارکس پر شکوہ کیا جس پر قمر زمان کائرہ ان سے لپٹ گئے معلوم ہوا ہے ڈاکٹر طاہر القادری کا ابتدا میں رویہ جارحانہ تھا تاہم چودھری شجاعت حسین کے مصالحانہ رویہ نے ان کواپنے رویہ میں لچک پیدا کرنے پرآمادہ کر لیا۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم کی مذاکراتی ٹیم میں شمولیت کی وجہ سے ڈاکٹر طاہر القادری آئین سے متصادم مطالبات سے دستبردار ہو گئے۔ مذاکراتی ٹیم نے ڈاکٹر طاہر القادری کو الیکشن کمشن کے بارے میں تحفظات کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا حکومتی ٹیم نے ڈاکٹر طاہر القادری سے ان کی خیریت دریافت کی۔ نماز مغرب کے وقفہ کے موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومتی ٹیم سے چارٹر آف ڈیمانڈ پر بات چیت شروع ہو گئی ہے میں انہیں تفصیل سے آگاہ کر رہا ہوں انہوں نے آئین کی مختلف شقوں کے حوالے دے کر اپنے موقف کے حق میں دلائل دئیے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی ٹیم سے معاہدے پر عملدرآمد کے لئے ضامنوں کے نام مانگ لئے جس پر چودھری شجاعت حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار نے انہیں ضمانت دینے کی پیشکش کی۔ مذاکرات کے دوران قمر زمان کائرہ لمحہ بہ لمحہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو معاہدے کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کرتے رہے۔ مذاکراتی ٹیم کے ارکان کا اپنی قیادت سے بھی رابطہ رہا۔ ڈاکٹر طاہر القادری معاہدے کی زبان اپنی مرضی کے مطابق تحریر کرنے پر زور دیتے رہے۔ مذاکراتی ٹیم نے ڈاکٹر طاہر القادری کو باور کرایا کہ وہ ان کی باعزت واپسی کا راستہ بنا کر ان کی ”فیس سیونگ“ کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے حکومتی مینڈیٹ کے بغیر ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کرنے سے معذرت کی اور کہا کہ حکومت کوئی واضح موقف اختیار کرے تو ہی مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کیلئے حکومت نے رابطہ کیا تو انہوں نے مذاکراتی ٹیم میں وزیر داخلہ رحمن ملک کو شامل نہ کرنے پر اصرار کیا۔ چودھری شجاعت حسین کا موقف تھا کہ آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ میں شریک معصوم بچوں اور خواتین پر ظلم برداشت نہیں کیا جائے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین بھی تحریک منہاج القرآن کے دھرنے کے خلاف کسی بھی طرح طاقت کے استعمال کی مخالفت کر چکے ہیں۔ وزیراعظم نے انہیں ڈاکٹر طاہر القادری سے مکمل مینڈیٹ دیئے جانے کے بعد مذاکرات کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ جب ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن پر دستخط کئے جانے کا اعلان کیا تو دھرنے کے شرکاءنے پرجوش نعرے لگا کر خیرمقدم کیا اور وکٹری کا نشان بنا کر جیوے جیوے طاہر جیوے کے نعرے لگائے۔ دھرنے کے شرکاءنے جشن منایا اور خوشی میں رقص کیا۔ واضح رہے جب حکومتی ٹیم مذاکرات کیلئے پنڈال میں آئی تو اسے شرکاءکی طرف سے مخالفانہ نعروں کا سامنا کرنا پڑا۔ قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے ہیں۔ ہم نے قوم کو خوشخبری دی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق طاہرالقادری اسمبلیاں فوری تحلیل کرنے اور الیکشن کمشن نئے سرے سے بنانے کے مطالبے سے بھی دستبردار ہوگئے ہیں۔ فریقین نے الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے عہدے پر برقرار رہنے، البتہ الیکشن کمیشن کے قوانین مزید سخت کرنے پر اتفاق کیا۔ حکومتی ٹیم نے الیکشن کمیشن تحلیل کرنے سے معذرت کی۔ نگران سیٹ اپ میں فوج کی مشاورت کا مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کے لئے ایک ہی روز میں دو بار ڈیڈ لائن دی گئی، پہلی ڈیڈ لائن سہ پہر 3 بجے تھی مگر اس وقت تک حکومتی اتحادیوں کی ٹیم مذاکرات کے لئے نہ پہنچ سکی تو انہوں نے اس میں 45 منٹ کی توسیع کر دی اور اس ڈیڈ لائن کے ختم ہونے کے ایک منٹ بعد ہی حکومتی ٹیم مذاکرات کے لئے ڈاکٹر طاہر القادری کے کنٹینر میں پہنچ گئی۔ اطلاعات کے مطابق جب علامہ طاہر القادری نے حکومت کو تین بجے سہ پہر تک مذاکرات کیلئے ڈیڈ لائن دی تو وزیراعظم کے پریس سیکرٹری نے ایک چٹ اتحادیوں کے اجلاس میں بھیجی جس میں بتایا گیا کہ علامہ طاہر القادری نے حکومت کو تین بجے تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ مذاکرات کرے ورنہ اگلا لائحہ عمل اختیار کرینگے۔ اس کے فوراً بعد حکومت نے مذاکرات کیلئے 10 رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کر دیا۔کائرہ نے صدر کو ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کی پیشرفت سے آگاہ کیا۔ حکومت نے صدر آصف علی زرداری سے ڈاکٹر طاہر القادری کو ملاقات کرانے کا عندےہ دےا ہے۔ کمےٹی نے ڈاکٹر طاہر القادری سے بات چےت کی۔ مذاکرات کے دوران وزیر اطلاعات نے اہم شخصیت کو دو بار ٹیلی فون کیا وہ اپنے باس کو اپ ڈیٹ کرتے رہے۔ اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن جمہوریت لانگ مارچ کے اختتام پر معاہدے کو پوری قوم کی عوام کی فتح کا دن ہے، لانگ مارچ جدوجہد کا لازوال نمونہ بن گیا ہے، لازوال قربانی کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ حکمران اتحاد کے قائدین نے کہا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی کی وجہ سے جمہوریت کو تقویت ملی ہے۔ جمہوریت کی وجہ سے معاہدہ طے پایا، قوم کو سرخروئی ملی، خواتین، بچوں اور ضعیف المعمر افراد کا سردی کے اس موسم میں سڑک پر بیٹھنا نہیں دیکھا جا سکتا تھا، دل خون کے آنسو رو رہا تھا، تاریخی لانگ مارچ ہوا اور ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا، ثابت ہوا ہے کہ قوم منظم ہے۔ معاہدے کے اعلان اور دھرنے کے اختتام پر شرکا سے خطاب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ مظاہرین کے صبر و استقامت اور عزم کی وجہ سے یہ فتح حاصل ہوئی۔ عوام اور لانگ مارچ کے شرکا کے لئے فتح کا دن ہے۔ آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور حقیقی جمہوریت کے لئے تاریخی جدوجہد پاکستان کی تاریخ کا سنہری باب بن گیا ہے۔ 23 دسمبر سے 17 جنوری تک جدوجہد تاریخ کا لازوال حصہ ہے۔ ما¶ں، بہنوں، بیٹوں نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، مشکلات میں ان کے عزم و استقبال کی مثال تاریخ میں کم ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی اور فتح و نصرت سے نوازا ہے۔ قربانی اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ حکومت اور اتحادی جماعتیں بھی مبارکباد کی مستحق ہیں جنہوں نے اچھی حکمت عملی سے مسائل کو جمہوری انداز میں خوشگوار ماحول میں حل کرنے کی کوشش کی اور اس عمل کو آگے بڑھایا جس کی وجہ سے پاکستانی قوم سرخرو ہوئی اور لانگ مارچ منزل مقصود کو پہنچ گیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر چودھری شجاعت حسین، مخدوم امین فہیم، وزیر قانون فاروق ایچ نائیک اور وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ کے نام لے کر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے قمر زمان کائرہ کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ میڈیا میں ہم پر تیر برساتے رہے مگر ہم نے کبھی ان کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ رات ہم پر شیطانی حملہ ہونا تھا مگر صدر زرداری، الطاف اور شجاعت کی مداخلت سے یہ حملہ نہیں ہوا۔ انہوں نے بار بار وزیر داخلہ رحمن ملک پر کڑی تنقید کی۔ طاہر القادری نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم کے تمام ارکان نے مثبت کردار ادا کیا اور کہا کہ منزل پر پہنچنے تک سب نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر افراسیاب خٹک، ڈاکٹر فاروق ستار کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ معاہدے میں بابر غوری نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ اتنا بڑا مارچ کبھی نہیں دیکھا۔ مذاکراتی کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ لال مسجد و جامعہ حفصہ کی تاریخ نہیں دہرائی گئی۔ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ بخیر و خوبی مکمل ہو گیا، اسے تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر تجارت اور پی پی پی پی کے چیئرمین مخدوم امین فہیم نے کہا کہ سردی میں بچوں اور خواتین کو سڑک پر بیٹھے دیکھنا بڑا مشکل تھا۔ ان بچوں اور خواتین کو اس سردی میں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ جائز حق پر متفق ہونے پر سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔ تاریخ رقم ہوئی اتنا بڑا لانگ مارچ ہوا اور ایک گملا نہیں ٹوٹا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مل کر یہ کامیابی ملی۔ تحریک منہاج القرآن کے رفقا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہم سب کھلے دل سے معاہدے پر متفق ہوئے۔ اتنا بڑا اور طویل مارچ کبھی نہیں دیکھا، مبارکباد دیتا ہوں، جمہوریت کی بحالی کے لئے لانگ مارچ کے شرکا اور ڈاکٹر طاہر القادری نے جو جدوجہد کی اسے تادیر یاد رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کا خاتمہ بھی لانگ مارچ کا ایک اہم حصہ ہے۔ سینیٹر افراسیاب خٹک، سینیٹر عباس آفریدی نے بھی اظہار خیال کیا اور مظاہرین کا پرامن رہنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ لانگ مارچ سے ثابت ہوا کہ پاکستانی منظم قوم ہے۔ سینیٹر افراسیاب خٹک، سینیٹر عباس آفریدی نے بھی اظہار خیال کیا اور مظاہرین کا پرامن رہنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ لانگ مارچ سے ثابت ہوا کہ پاکستانی منظم لوگ ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ جمہوریت کو تقویت ملی ہے۔ جمہوریت سنتی ہے اس سے پہلے بھی اس قسم کے تکلیف دہ مراحل آئے تھے مگر جس طرح ان سے نمٹا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، جمہوریت کے ثمرات حاصل ہوئے ہیں، عوام نے ثابت کیا کہ وہ پرامن ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کا حقیقی ترقی پسند چہرہ ہیں۔ آج ہم سب کی فتح ہوئی ہے، جمہوریت جیتی۔ فتح پر قوم کو مبارکباد دیتا ہوں ہم نے جمہوریت کے سفر میں مفاہمتی پالیسی کو اختیار کیا۔ نظریہ مفاہمت کی وجہ سے مختلف فورم کے لوگ یکجا ہیں۔ قوم کے مسائل کا علاج جمہوریت اور مزید جمہوریت ہے، یہی ہمارا مقصد ہے، ہم دہشت گردی اور انتہا پسندی اور کرپشن کے خلاف ہیں۔ اس حوالے سے ملک و قوم کی فتح ضرور ہو گی۔ لانگ مارچ کے شرکا کا عزم دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے لئے مثالی ہے۔ پرامن لانگ مارچ کا کوئی جواب نہیں ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ نے کہا کہ آج جمہوریت کی فتح ہوئی۔ عوام سرخرو ہوئے ہیں۔ مائیں، بنیں، بزرگ، بچے ملک کے کونے کونے سے آئے ہیں۔ عوام ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں۔ جمہوریت ہی ہماری اصل طاقت ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور کہا کہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے ویژن کو کامیابی ہوئی۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے بھی معاہدے پر قوم کو مبارکباد دی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے لانگ مارچ اور کامیاب انعقاد پر شرکا کی کامیابی اور حوصلہ مندی پر الطاف بھائی اور ایم کیو ایم کی جانب سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں، آپ نے جس استقامت اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا اس کا مقصد ملک میں بہتر حقیقی جمہوریت قائم کرنا، نظام انتخابات میں ضروری اصلاحات کے لئے آپ نے لانگ مارچ کیا، لانگ مارچ کا مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ہے۔ ہمارے ایک رکن اسمبلی منظر امام بھائی کو جام شہادت پر مجبور کر دیا گیا۔ انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، ہم نے اس کی مذمت کی ہے۔ اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک نے کہا کہ جمہوریت ایک قدم اور آگے بڑھی۔ مارچ نے ثابت کیا پاکستانی قوم اور قربانیاں دے سکتی ہے۔ آج معاہدہ ہوا اس پر قائم رہیں گے۔ ہم دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہمارے رہنما بشیر بلور سمیت 700 سے زیادہ کارکن اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔ فاٹا کے رہنما عباس آفریدی نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم کی کوششوں سے، آپ کی محنت نے ثابت کیا کہ جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ایم کیو ایم کے بابر غوری نے کہا کہ معاہدے کی سب کو مبارکباد دیتے ہیں، طاہر القادری کو مبارکباد دیتا ہوں میں نے دنیا میں اس قسم کا پرامن احتجاج کہیں نہیں دیکھا۔ پہلے لوگ ایم کیو ایم کے ڈسپلن کی مثال دیتے تھے اب آپ نے اسے ثابت کیا ہے، ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹا، جس دن یہ سفر شروع ہوا ہمارے چار کارکن شہید ہوئے آج بھی منظر امام سمیت 4 ساتھیوں نے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ مشاہد ح سین نے کہا کہ آپ کو مبارکباد یہ پاکستان کی فتح ہے، طاہر القادری اور میں اکٹھے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا کرتے تھے جو ویژن قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناحؒ کا تھا آپ نے وہ تازہ کیا ہے۔ اس سے قبل دھرنے کے شرکا سے پانچویں خطاب کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہم مسائل کے پر امن حل پر یقین رکھتے ہیں۔ سےاست دانوں کے طرز عمل سے ثابت ہو گیا ہے ملک میں آئین کی بالادستی کی کوئی گنجائش نہیں۔ جمعہ کو دھرنا نہیں ہو گا معرکے کو ختم کرنا ہے حکمران شروع دن سے کرپشن پر متفق تھے، ہیں اور رہیں گے، حکمرانوں میں شرم نہیں، مجھ پر الزامات لگانے والے جھوٹے ہیں، جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ تیز بارش بھی دھرنے کے شرکا کو منتشر نہ کر سکی انہوں نے جلسے کے شرکا کے عزم اور استقامت پرانہیں سلام پیش کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی دعوت پر اپوزیشن رہنماﺅں کے مشاورتی اجلاس میں منظور کردہ 10 نکاتی اعلامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ سارے لوگ پہلے دن سے کرپشن پر اکٹھے ہیں ا ور آئندہ بھی رہیں گے۔ میں نے قوم کو پہلے بھی بتا دیا تھا کہ یہ سب اپنی کرپشن پر متحد ہیں، جس طرح ان لوگوں کو کرپٹ حکومت کے خلاف عوام کے اٹھ کھڑے ہونے کی تکلیف ہو رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سب اندر سے ایک ہیں اور اپنی کرپشن کیلئے آئندہ بھی اکٹھے رہیں گے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے سپریم کورٹ کی طرف سے رینٹل پاور کیس میں وزیر اعظم کی گرفتاری کے احکامات کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے نہ ماننے پر شدید نکتہ چےنی کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کو قانون سکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے وزیر اعظم اور دیگر کرپٹ افراد کی گرفتاری کا حکم دیا تھا لیکن حکمرانوں کی ایماءپر عدالت میں سپریم کورٹ کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ وزیر اور مشیر سپریم کورٹ کو قانون سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قوم بجلی کے بارے میں پوچھتی ہے ‘ میں قوم کو بتاتا ہوں کہ سارے پیسے تو وزیر اعظم وزراءاور بدعنوان سیاستدان کھا گئے ہیں بجلی کہاں سے آئے گی جس پر دھرنے کے شرکاءنے باآواز بلند شیم شیم کے نعرے لگائے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے دعویٰ کیا کہ ان کے دھرنے اور لانگ مارچ میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے والے دیگر جماعتوں کے کارکن ‘ تاجر‘ وکلا اور کسانوں کے علاوہ ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ طاہر القادری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے کہ دھرنے میں وہ لوگ شریک ہوئے جن کو گیس‘ پانی اور بجلی نہیں مل رہا۔