فیصلے سے پہلے کوئی فیصلہ کرو؟
میں دس مرلے کے کوارٹر میں جو میرے بیٹے کے نام ہے بیٹھا ہوں اور اسلام آباد کے بچوں، عورتوں اور لوگوں کے لئے سوچ کر دکھ سے کانپ رہا ہوں۔ میں قادری صاحب کی شخصیت کی بات نہیں کرتا مگر جو باتیں وہ کر رہے ہیں ان سے کسے اختلاف ہے؟ حیرت ان لوگوں پر ہے جو اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی باری کے منتظر ہیں۔ انتخابات سے پہلے گندگی صاف کی جائے ورنہ پھر وہی گند اسمبلیوں میں آ جائے گا۔ اُن کی عمریں پارلیمنٹ میں گزر گئی ہیں اور اس کا ذرا فائدہ عوام کو نہیں ہوا۔ یہی لوگ ہیں جن پر جعلی ڈگریوں کے ثبوت ثابت ہوئے۔ وہ ظالم ہیں امیر کبیر ہیں۔ کبھی قانون کی پرواہ نہیں کی، آئین کے اس حد تک ساتھ ہیں کہ ان کا اقتدار قائم رہے۔ آئین کے لئے ہر آدمی اپنی تشریح کرتا ہے۔ ایک دوسرے پر وہی الزامات لگاتے ہیں جو خود اُن پر لگتے ہیں۔ صرف اسی بات میں سب سچے ہیں۔ میرے بابا جی بابا عرفان الحق نے جہلم سے فون پر بڑی دردمندی سے بات کی اور کہا کہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، اللہ جس قوم پر اپنا فضل کرنا چاہتا ہے تو ظالموں کو ایک دوسرے سے لڑا دیتا ہے۔ حکمرانوں، سیاستدانوں کے لڑنے کے دن آنے والے ہیں۔ کبھی یہ سیاستدان مہنگائی کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے۔ ظلم، بے انصافی، کالا باغ ڈیم کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے۔ خود قانون کو کچھ نہیں سمجھتے۔ ان کا آئین اپنا اپنا ہے۔ آئین کی رٹ لگانے والوں نے کبھی آئینہ نہیں دیکھا، وہ اپنی صورت سے ڈرتے ہیں مگر یہ چہرہ لے کے لوگوں سے ووٹ مانگنے چلے جاتے ہیں۔ نواز شریف نے سیاستدانوں کا اجلاس بلایا، وہ قادری صاحب کو شکست دے کے کیا کر لیں گے۔ صدر زرداری کے جیالے کہتے ہیں کہ صدر زرداری نے سیاستدانوں کو کئی بار شکست دی ہے۔ یہی آئین اور جمہوریت تھی جس کی وجہ سے صدر زرداری نے نواز شریف کی اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن بنایا، وہ پھر کامیاب ہو گئے ہیں۔
برادرم انصار عباسی نے ٹھیک بات کی ہے کہ تم ڈاکٹر طاہر القادری سے بات تو کرو۔ سردی میں ٹھٹھرتے ہوئے جواں ہمت لوگوں، عورتوں بچوں پر رحم کرو۔ اس بات کو بھی قمر الزمان کائرہ نے تمسخر میں اڑا دیا ۔ کائرہ صاحب سے یہ امید نہ تھی وہ ایک سنجیدہ اور مہذب آدمی ہیں مگر انہوں نے قادری صاحب کی نقلیں اتار کے صحافیوں کو ہنسایا۔ آجکل اکثر ٹی وی چینلز پر یہی کام ہو رہا ہے۔ وہ وزارت چھوڑ کر کسی ٹی وی چینل پر یہی کام پکڑ لیں۔ سیاستدان پہلے زندگی میں نقلیں مارتے ہیں اور پھر نقلیں اتارتے ہیں۔ مبارک ہو کہ پیپلز پارٹی کو ایک کریکٹر مل گیا ہے۔ پہلے تو پاکستان میں ایک آدمی بھی رحمان ملک کے لئے اچھی رائے نہیں رکھتا تھا، اب کائرہ صاحب بھی ان کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ اللہ ان پر رحم کرے۔
مولانا فضل الرحمن نے قادری صاحب کو مسلمانوں کا جے سالک کہا ہے۔ جے سالک ایک مخلص مسیحی لیڈر ہے۔ وہ مولانا سے ہزار درجے اچھا ہے، اس نے محلات نہیں بنائے، ہزار بار اپنا مو¿قف نہیں بدلا۔ سترہویں ترمیم منظور کرا کے ایک ”آئینی صدر“ جنرل مشرف کی حکومت کو استحکام بخشا، پھر اٹھارویں ترمیم بھی اسی جذبے سے منظور کروائی۔ نواز شریف بھی اس اجلاس میں موجود تھے۔ صوبہ سرحد کا خیبر پختونخواہ نام اسی ترمیم میں دے کے سرحدی گاندھی کی روح کو خوش کیا گیا۔ مولانا نے اعظم سواتی سے کروڑوں روپے لے کے انہیں سینیٹر بنوایا۔ ایم ایم اے اپنے مفادات کے لئے بنوائی اور پھر تڑوائی۔ قادری صاحب سے تو ان کی کوئی دشمنی ہو گی مگر جے سالک کے لئے میں احتجاج کرتا ہوں۔ وہ نواز شریف کی پریس کانفرنس میں چھائے ہوئے تھے۔ منور حسن اور لیاقت بلوچ ڈرے ہوئے کھڑے تھے۔ اب انشا¿اللہ ایم ایم اے پھر بن جائے گی؟ محمود اچکزئی چادر اوڑھ کر سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے باکردار ہیں۔ عوام اس سادہ دیانتدار اور دلیر آدمی سے کسی اور اقدام کے منتظر ہیں۔ سُنا ہے صدر زرداری اور نواز شریف انہیں نگران وزیراعظم بنانے پر متفق ہو چکے ہیں، ان سے تو ظفراللہ جمالی اچھے رہے کہ وزیراعظم بن گئے مگر ان کے مستعفی ہونے نے ہمارے دل توڑ دئیے تھے۔ دلیر بلوچ اتنے کمزور نہیں ہوتے۔
مجھے سب سے زیادہ افسوس عمران خان پر ہے کہ وہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح روایتی آدمی بن گیا ہے۔ اس طرز انتخاب میں عمران کی کامیابی ناممکن ہے چند سیٹیں لے کے وہ اتحادی حکومت کا حصہ ہو گا یا اپوزیشن میں بے اثر کردار کا مالک ہو گا۔ یہ بات غلط نہیں کہ پارلیمنٹ میں اچھے اور عام لوگ ہوں مگر عمران کے آس پاس بھی وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ پارلیمنٹ میں رہے اور انہوں نے کیا کِیا۔ شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، محمود الرشید وہی کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔
میں مظلوموں کے ساتھ ہوں۔ میں نواز شریف کی جلاوطنی میں جنرل مشرف کے خلاف تھا اور شاید میں واحد کالم نگار ہوں کہ گورنر پنجاب جنرل خالد محمود نے مجھے ملازمت سے فارغ کیا تھا۔ جدہ سے مجھے نواز شریف نے فون کئے مجھے بہادر صحافی کہا۔ اس کے گواہ صدر رفیق تارڑ ہیں۔ میں نے صدر مشرف کے زمانے میں ایک بار بھی انہیں سابق صدر نہیں کہا تھا۔ جلاوطنی کے بعد ہموطنی میں نواز شریف وہی سیاستدان بن گئے۔ وہ پھر خدانخواستہ جلاوطن ہوئے تو میں ان کے لئے حمایت میں لکھوں گا، پہلے بھی انہوں نے مجھے نہیں کہا تھا، مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں۔
میں نے زرداری صاحب کے لئے جیل میں سب سے زیادہ لکھا۔ ان کے معاون عمومی ڈاکٹر قیوم سومرو میرے گھر میں آتے رہے وہ ان کے معاون خصوصی ہیں اور ایوان صدر میں رہتے ہیں۔ میرے چیف ایڈیٹر بہادر صحافی لِونگ لیجنڈ مجید نظامی نے انہیں مردِ حُر کہا تھا جس سے تمام جیالوں کو حوصلہ ملا اور وہ اس خطاب کو زرداری کے لئے بطور گواہی پیش کرتے رہے۔ صدر زرداری سے سچی حریت پسندی کی امید تھی؟ صرف سیاستدانوں کو شکست دینا کافی نہیں۔ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائیں اور عوام کے لئے کچھ کریں۔ ان کے عہد میں خلقِ خدا بہت ذلت اور اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ پھر کبھی جیل میں گئے تو ان کے حق کے لئے پھر میدان میں آﺅں گا اور کروڑوں روپے لینے والے صحافی ان کے کسی کام نہیں آئیں گے۔
میں قادری صاحب کی حمایت نہیں کرتا، ان کی باتوں کی حمایت کرتا ہوں کہ وہ ٹھیک بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے اب تک جو کچھ کہا ہے کر کے دکھا دیا۔ ملک میں ایسے لوگ سیاست اور حکومت میں آئیں جو کردار والے ہوں، جو آئین اور قانون کے محافظ ہوں، سچے لوگ ہوں۔ اگر ٹھیک لوگ آتے تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے پاکستان کو اپنی جاگیر بنا لیا ہے، اپنا بیڈ روم بلکہ باتھ روم بنا لیا ہے۔ قائداعظم نے غریبوں کے لئے یہ ملک بنایا تھا۔ چند امیر کبیر بے ضمیر لوگوں نے یہاں قبضہ کر لیا ہے۔ اشرافیہ بدمعاشیہ بن گئی ہے۔
کیا یہ ملک بھٹو خاندان، شریف فیملی، باچا خان کی اولاد کے لئے بنایا گیا تھا۔ آخر یہاں کے بے گناہ، بے خبر، محروم، مظلوم، محکموم لوگوں کا کیا قصور ہے۔ سوشل ویلفیئر اکیڈمی کے اصغر مغل فون پر میرے ساتھ بات کرتے ہوئے دھاڑیں مار مار کے رونے لگے، سیاستدان حکمران بتائیں کہ ہم صرف رونے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔ برادرم انصار عباسی نے لکھا ہے کہ کیا حکمران اور سیاستدان سانحہ کوئٹہ کی طرح سانحہ اسلام آباد کا انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی بچہ مر جائے، کوئی عورت بے ہوش ہو جائے اور پھر آئین کے دوست بننے والے دشمنوں کے
خلاف لاشیں بھی احتجاج کریں۔ خبر کے مطابق ایک عورت مر گئی اور کئی بچے بے ہوش ہیں، سیاستدان اور حکمران شاید یہی چاہتے تھے۔ خدا کی قسم کچھ ہو گیا تو یہ سانحہ لال مسجد سے بھی بڑا حادثہ ہو گا۔ (نوٹ:.... یہ کالم حکومتی اتحادیوں کے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے لکھا گیا)