وزیراعظم کے خلاف رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل مردہ پائے گئے‘ چیف جسٹس نوٹس لیں قتل کیا گیا: والد ‘ کزن
اسلام آباد (وقائع نگار + اے ایف پی + نوائے وقت نیوز + نیٹ نیوز) قومی احتساب بیورو (نیب) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر 31 سالہ کامران فیصل اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے ہیں۔ ان کے پوسٹ مارٹم کے بعد نعش ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے۔ نعش ان کے ماموں محمد اقبال نے وصولی کی جو اسے میاں چنوں لے گئے۔ کامران فیصل نیب ہیڈ کوارٹر سے ملحقہ فیڈرل لاجز ٹو کے کمرہ نمبر ایک میں رہائش پذیر تھے، ملازمین نے جمعہ کو دن 12 بجے تک دروازہ نہ کھلنے پر پولیس کو اطلاع دی، دروازہ کھولا گیا تو کامران فیصل کی نعش پنکھے سے جھول رہی تھی۔ پولیس نے نعش اتار کر پوسٹمارٹم کے لئے پمز بھیجی۔ جائے حادثہ کی باریک بینی سے تلاشی لی گئی۔ نیب ذرائع کے مطابق کامران فیصل رینٹل پاور کیس میں تفتیشی افسر اور ڈائریکٹر اصغر خان کے ساتھ کام کر رہے تھے، کئی بار اعلیٰ حکام کو اس تفتیش سے الگ ہونے اور اسے سینئر افسر کے سپرد کرنے کی درخواست کر چکے تھے۔ نیب ذرائع کا کہنا تھا کہ تفتیش سے الگ نہ کئے جانے کے باعث کامران فیصل شدید ذہنی دباﺅ کا شکار بھی تھے۔ کامران فیصل کا تعلق میاں چنوں سے ہے۔ چیئرمین نیب ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کامران فیصل کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک محنتی افسر ہم سے جدا ہو گیا۔ اطلاعات کے مطابق کامران فیصل کو تفتیش کے دوران شدید دباﺅ کا سامنا تھا۔ انہیں تفتیشی رپورٹ واپس لینے کیلئے کہا جا رہا تھا، کامران فیصل کے گھر معلومات کے لئے ٹیم بھجوا دی گئی ہے، ان کے دوست احباب سے بھی رابطے کیے جارہے ہیں۔ چیئرمین نیب نے گذشتہ روز عدالت میں بیان دیا تھا کہ کامران فیصل بیمار ہیں جبکہ پراسیکیوٹر نیب نے عدالت کو بتایا تھا کہ عدالتی مداخلت اور توہین عدالت کے نوٹس کی وجہ سے ہمارے تفتیشی افسر دباﺅ کا شکار ہیں۔ رینٹل پاور میں کرپشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے نیب کی رپورٹ پر ہی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 اہم ملزموں کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔ بعض حلقے کامران فیصل کی موت کو قتل قرار دے رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق بظاہر یہ خودکشی کا معاملہ لگتا ہے۔ معاملے کی تفتیش کے دوران نیب کے حکام نے کامران فیصل کو ایک اور تفتیشی افسر سمیت یہ کہہ کر تفتیش سے الگ کیا تھا کہ سپریم کورٹ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تاہم سپریم کورٹ نے یہ بات نوٹس میں لائے جانے کے بعد انہیں بحال کر دیا تھا اور چیئرمین نیب کو اس معاملے میں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق کامران فیصل کے ایک ساتھی افسر کا کہنا ہے کہ وہ رینٹل پاور کیس کی وجہ سے ذہنی دباو¿ کا شکار تھے، ان کے ایک پڑوسی نے بھی اس م¶قف کی تصدیق کی۔ اس پڑوسی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس کیس سے الگ ہونا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ دن پہلے ہی میری ان سے ملاقات ہوئی تھی وہ یہیں واک کررہے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اس کیس کی وجہ سے بہت پریشان ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طریقے سے ان کی اس کیس سے جان چھوٹ جائے۔ نیب کے افسر انہیں اس کیس سے الگ نہیں کر رہے۔ تفتیش کے حوالے سے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں۔ پڑوسی نے کہا کہ میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ سچ لکھ دو، اگر کوئی مسئلہ بنے گا تو کورٹ آپ کو بحال کرا دے گی۔ ان کے ساتھی بھی انہیں یہی مشورہ دیتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق کامران فیصل رینٹل پاور کیس کے ان تفتیشی افسروں میں سے تھے جن کی تیار کردہ تفتیشی رپورٹ کی بنیاد پر پندرہ جنوری کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 افراد کی گرفتاری کے احکامات دئیے تھے۔ اس رپورٹ کو نیب کے چیئرمین نے 17 جنوری کو ناقص قرار دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ملزموں کے خلاف اس معاملے میں ریفرنس ٹھوس ثبوت کے بغیر بنائے گئے ہیں۔ اس معاملے کی تفتیش کے دوران نیب کے حکام نے کامران فیصل کو ایک اور تفتیشی افسر سمیت یہ کہہ کر تفتیش سے الگ بھی کیا تھا کہ سپریم کورٹ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تاہم سپریم کورٹ نے یہ بات نوٹس میں لائے جانے کے بعد انہیں بحال کر دیا تھا اور چیئرمین نیب کو اس معاملے میں توہینِ عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ دریں اثناءوفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے کہا ہے کہ کامران فیصل کی موت کے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ پولیس سے ابتدائی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے، اس رپورٹ کی روشنی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کریں گے۔ پولیس نے کامران فیصل کا موبائل فون اور دیگر کاغذات تحویل میں لے لئے ہیں۔ کامران فیصل کے کمرے سے فنگر پرنٹس بھی حاصل کر لئے گئے ہیں۔ کامران فیصل کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔ پراسرار موت کی تین ادارے تحقیقات کر رہے ہیں۔ فیڈرل لاجز میں کامران فیصل کا پتہ معلوم کرنے کے لئے آنے والے نیب اہلکاروں کی تلاش کی جا رہی ہے۔ کامران فیصل کی نعش کے پوسٹ مارٹم کے لئے بنائے گئے میڈیکل بورڈ میں 3 ڈاکٹروں کا اضافہ کیا گیا، اس طرح پوسٹ مارٹم کرنے والا میڈیکل بورڈ 6 ڈاکٹرز پر مشتمل تھا۔ میڈیکل بورڈ میں فزیشن ڈاکٹر افتخار ملک، سرجن عنایت اللہ بیگ، آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر الطاف میڈیکل بورڈ شامل کئے گئے تھے۔ کامران فیصل کے مختلف اعضا کے نمونے تجزیہ کے لئے لاہور کی لیبارٹری میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری اور دیگر افسروں نے بیان میں کامران فیصل کی موت پر گہرے غم و رنج کا اظہار کرتے ہوئے اسے افسوسناک واقعہ قرار دیا ہے۔ نیب کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ نیب انتظامیہ اپنے افسر کامران فیصل کی موت کو افسوسناک واقعہ قرار دیتی ہے۔ مرحوم کامران فیصل نے 2006ءمیں قومی احتساب بیورو کو بطور انویسٹی گیشن آفیسر جوائن کیا وہ مئی 2011ءتک کوئٹہ میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں جس کے بعد انہوں نے ایف آئی اے میں خدمات سرانجام دیں، وہ مئی 2012ءمیں دوبارہ نیب میں واپس آئے اور انہیں نیب راولپنڈی ریجن میں تعینات کیا گیا تھا۔ ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی ریجن، ترجمان بلال خان اور دیگر افسروں نے بھی ساتھی افسر کی ناگہانی موت پر افسوس کا اظہار اور لواحقین کو صبر جمیل اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے دعا کی۔ دوسری جانب وزارت داخلہ نے کامران فیصل کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن قائم کر دیا ہے۔ وزیر داخلہ رحمن ملک کی ہدایت پر ڈ سٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد عامر علی احمد نے ایریا مجسٹریٹ نعمان یوسف کو انکوائری افسر مقرر کر کے رپورٹ طلب کی ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ عامر علی احمد نے نوائے وقت کو بتایا کہ معاملہ کی تحقیقات کی جا رہی ہے، اس مقصد کے حصول کے لئے کامران فیصل کی ڈیڈ باڈی کا پوسٹ مارٹم ناگزیر ہے جب ان سے استفسار کیا گیا کہ مرحوم افسر کے والد نے پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے اب اس کی رپورٹ کے نتیجے میں تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق تحقیقات میں پیشرفت ہوئی ہے۔ موت کی رپورٹ دینے والے نیب کے 4 اہلکاروں سے پولیس نے رابطہ کیا ہے۔ ان کے کہنے پر ہی پولیس کامران کے گھر گئی، کمرہ اندر سے لاک تھا اور نعش پنکھے سے لٹک رہی تھی۔ روم میٹ ساجد علی سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق کامران فیصل کے جسم سے بیرونی حصوں پر تشدد کے نشانات نہیں گردن پر نشان واضح ہے۔ ایکسرے رپورٹ پر آج ریڈیالوجسٹ سے رائے لی جائے گی۔ دیگر اعضا کے علاوہ گردن سے بھی نمونے لئے گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق کامران فیصل نے نیب کو اپنے خط میں رینٹل پاور کیس دوسرے سینئر افسر کو دینے کی درخواست کی تھی۔ کامران فیصل نے 13 نومبر 2012ءکو ڈی جی نیب کے نام خط میں تفتیشی افسر بدلنے کی درخواست کی۔ اس نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ میں رینٹل پاور جیسا میگا سکینڈل ہینڈل نہیں کر سکتا۔ رینٹل پاور کیس کسی ماہر سینئر تفتیش کار کو سونپا جائے۔ میں نے نیب میں ایک ماہ کا بنیادی کورس کیا ہوا ہے، اپنی 6 سال کی ملازمت میں ساڑھے 4 سال کا تجربہ آئی جی اور مانیٹرنگ سیل پر مشتمل ہے، ناجائز اثاثوں سے متعلق صرف چند انفرادی کیسز نمٹائے ہیں، مجھے کچھ سادہ کیسز دئیے جائیں۔ انسپکٹر جنرل اسلام آباد پولیس بنیامین خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کامران فیصل کی نعش رسی کے ساتھ پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کامران فیصل کے جسم پر کسی قسم کی ضربوں کے نشانات نہیں پائے گئے تاہم اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موت گلے میں پھندے سے ہوئی ہے۔ موت کا حتمی سبب میڈیکل رپورٹ اور تحقیقات کے بعد معلوم ہو سکے گا۔ چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری نے کہا کہ کامران فیصل کی موت کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جائیں گی اور حقائق کو سامنے لایا جائے گا۔
میاں چنوں + محسن وال (خبر نگار + نامہ نگار) رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل کے والد ریٹائرڈ زراعت افسر عبدالحمید نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا اہم کیسوں کی تفتیش کر رہا تھا اسے راستہ سے ہٹایا گیا ہے، صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ بعدازاں نعش چھت سے لٹکا دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میری چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ وہ اس واقعہ کا ازخود نوٹس لے کر تحقیقات کرا کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ دریں اثناءنجی ٹی وی کے مطابق کامران فیصل کے والد نے بیٹے کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان کا بیٹا مضبوط اعصاب کا مالک تھا خودکشی نہیں کر سکتا۔ اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔ آپ مجھے جتنا مرضی کرید لیں اس بارے میں میرے پاس کوئی معلومات نہیں۔ مجھے 12 بجے کے قریب اپنے بیٹے کی اطلاع ملی۔ صبح میری بیٹے سے بات ہوئی۔ واضح رہے کامران فیصل کی ایک بیٹی 3 سال کی اور دوسری 5 سال کی ہے۔ نماز جنازہ آج ہو گی۔ ان کے چچا نے بتایا کہ کامران فیصل نے کبھی دفتری بات ہم سے نہیں کی تھی اسے رینٹل پاور کیس میں تفتیشی افسر مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے اعصاب مضبوط تھے۔ وہ خودکشی نہیں کر سکتا۔ کامران فیصل کے کزن افضل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری اتوار کو کامران سے فون پر بات ہوئی تھی اس دن ہڑتال تھی وہ واپس جاب پر جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے کچھ ”ارینج“ کرنے کے لئے کہا، وہ اپنی ملازمت میں بہت ذمہ دار اور دیانتدار تھے، وہ خودکشی نہیں کر سکتے، ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور ہوا ہے۔ ہم چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شفاف انکوائری کی جائے جو پیچھے محرکات ہیں سامنے لایا جائے۔ ان کے والد کا یہ ذاتی فیصلہ ہے کہ کامران فیصل کا پوسٹ مارٹم نہ کرایا جائے جبکہ حکام ان کا پوسٹ مارٹم کرانے پر بضد ہیں۔ ان کے پاس کافی بڑا کیس تھا ان کے ایک اور کزن نے بتایا کہ ان کے چہرے پر دبا¶ یا پریشانی نہییں ہوتی تھی۔ وہ خودکشی کر ہی نہیں سکتا، یہ حقیقتاً قتل ہے شفاف انکوائری ہونی چاہئے اور انصاف ملنا چاہئے۔ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ ملزم کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ نامہ نگار کے مطابق کامران فیصل چار بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ ان کی رہائش محلہ علم دین کالونی میں ہے۔ ان کے والد نے کہا کہ میر ا بیٹا ایماندار افسر تھا۔ اس کو قتل کیا گیا ہے۔ خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کرنا موت کا سبب بنا۔ میر ا بیٹا مضبوط اعصاب کا مالک تھا جو کبھی خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا تھا۔ ایماندار افسر تھا جو 13 جنوری کو بذریعہ ٹرین اسلام آباد گیا تھا اور سرکاری گاڑی بھی استعمال نہیں کرتا تھا۔ کرپٹ لوگوں کے کیس کی تفتیش اس کے قتل کا سبب بنی، میں نہیں مانتا کہ وہ خودکشی کر سکتا ہے۔