• news

معیشت کمزور ہو تو جمہوریت کا عوام کو فائدہ؟

اسلام آباد دھرنے کے بعض مخفی پہلو ایسے ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی راہنمائی کیلئے کافی ہیں کہ وہ بیروزگاری ختم کرنے اور مہنگائی کے خاتمے کی طرف خصوصی توجہ دیں۔ وفاقی حکومت بے شک نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر IPPS اور بجلی گھروں کو تیل کی سپلائی کرے اور بقایاجات ختم کرکے معیشت کی بہتری کی طرف خصوصی توجہ دے۔ مختلف چینلز نے دھرنے کے مختلف طبقوں کے جو انٹرویز ٹیلی کاسٹ کئے، ان سے معلوم ہوا کہ اکثریت بیروزگاری، مہنگائی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اس دھرنے کا حصہ بنی۔
بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے گزشتہ 5 سالوں میں جتنے بھی ترقیاتی منصوبے شروع کئے، ان تمام منصوبوں میں سے ایک بھی منصوبہ ایسا نہیں ہے جو زیادہ سے زیادہ افراد کو روزگار فراہم کرے۔ 5 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ ملتان سے لودھراں ڈبل ریلوے لائن کے لئے مخصوص کیا گیا جبکہ اس رقم سے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز کو فروغ دینے کے بہت سے منصوبے شروع کرکے ہزاروں افراد کو نیا روزگار دیا جاسکتا تھا۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔
حکومت کی آنکھیں کھولنے کیلئے ورلڈ بنک کی سالانہ رپورٹ ”گلوبل اکنامک پراسپیکٹس جنوری 2013ئ“ غور طلب اور چشم کشا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں پاکستان کی شرح نمو 3.8 فیصد رہ گئی ہے جو نیپال کے برابر ہے۔ عبرت کا مقام ہے کہ دنیا پاکستان اور نیپال کی معیشت کو مساوی درجہ دے لیکن صرف گیس اور بجلی کے بحران نے معیشت کا پہیہ سست کیا ہے۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی شرح نمو پاکستان سے 2، 3 فیصد زیادہ ہے جبکہ حکومت پاکستان کا ہدف برائے مالی سال 2012-13ءکے لئے 4.2 فیصد تھا جو حاصل نہیں کیا جاسکا۔ آئی ایم ایف کا ایک وفد بھی آج کل نئے پروگرام کے لئے پاکستان کے دورے پر ہے اور اس نے بھی معاشی ترقی کی رفتار کو سست قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لئے اپنا نظرثانی شدہ ٹارگٹ حاصل کرنا بھی دشوار نظر آرہا ہے۔ ایف بی آر نے موجودہ مالی سال کیلئے ٹیکس آمدنی کا ہدف 2381 ارب روپے مقرر کیا تھا جو مشکل نظر آنے پر کم کرکے 2190 ارب کر دیا گیا۔
ویسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں نئی سکیموں کو نافذ کرنے کا موقع مل گیا تو پھر ہم موجودہ مالی سال کا نظرثانی شدہ ہدف آسانی سے حاصل کریں گے۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ وفاقی حکومت کم از کم بجلی اور گیس کا سسٹم پیداواری یونٹوں کے لئے درست کر دے تو 6 ماہ موجودہ مالی سال کے باقی ہیں۔
پاکستان کی صنعت و تجارت سے وابستہ شخصیات اس قابل ہیں کہ اگر حکومت صرف بجلی کا نظام قرضے ادا کرکے درست کر دے اور گیس کی سپلائی انڈسٹری کو فراہم کر دے تو نہ صرف حکومت کا ٹیکسوں کا ہدف پورا ہوسکتا ہے بلکہ بجٹ خسارہ بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ ویسے اس بات پر حیرت ہے کہ انتخابات سر پر ہیں تو ان حالات میں آئی ایم ایف کی ٹیم کو بلانے کی کیا ضرورت تھی جو بھی نئی حکومت آتی، وہ اپنی معاشی پالیسی کے مطابق فیصلہ کرتی۔
رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین شہزاد احمد ملک نے ”نوائے وقت“ کو بتایا کہ ٹیکسٹائل کے بعد زرمبادلہ کمانے والی دوسری بڑی آئٹم چاول کی ایکسپورٹ میں قیمت بڑھ جانے کی وجہ سے کچھ کمی آگئی ہے۔ گزشتہ سال چاول کی ایکسپورٹ 2.2 ارب ڈالر تھی جو اس سال 2 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انڈین گورنمنٹ نے اپنے کاشتکاروں کو سستی کھاد، بیج اور پانی فراہم کرکے ان کی پیداواری لاگت کم کر دی ہے، جس کی وجہ سے وہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں چاول 1000 ڈالر ٹن تک فروخت کر رہے ہیں جبکہ پاکستان میں کھاد، بیج اور ٹیوب ویلوں پر بجلی کی قیمت میں اضافہ سے پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ قیمت 1100 ڈالر فی ٹن ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی چاول مقبول ہے کیونکہ اس کا ذائقہ لذیذ ہے اور اس کی کوالٹی بھی پسند کی جاتی ہے لیکن 100 ڈالر کا فرق کم کرنے کی ضرورت ہے، جس کے لئے پاکستانی کاشتکاروں کی پیداواری لاگت کم کی جائے۔

ای پیپر-دی نیشن