مولانا نورانی نے طاہر القادری کو اپنی اصلاح کا مشورہ دیا تھا: اعجاز ہاشمی
لاہور (خصوصی رپورٹ) جے یو پی کے مرکزی رہنما پیر اعجاز ہاشمی نے کہا ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی نے طاہر القادری کو اپنی اصلاح کا مشورہ دیا تھا۔ روزنامہ ”امت“ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پیر اعجاز ہاشمی نے مزید کہا 90ءکی دہائی میں جب طاہر القادری نے ”پاکستان عوامی تحریک“ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی تو انہوں نے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن مولانا نورانی نے ان کی درخواست قبول نہ کی۔ انہوں نے مزید بتایا پاکستان عوامی تحریک بنے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ایک اخبار نویس کے ذریعے طاہر القادری نے مولانا نورانی کے پاس پیغام بھجوایا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ مولانا نے ابتدا میں تو ٹال دیا لیکن بار بار اصرار پر ٹیلی فون پر طاہر القادری سے بات کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ گفتگو میری موجودگی میں میرے گھر پر ہی ہوئی۔ انہوں نے بتایا طاہر القادری نے مولانا نورانی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا میں نے عشق رسول اور محبت رسول کے تحت سیاسی جماعت بنائی ہے، میں چاہتا ہوں جو کام آپ کر رہے ہیں، وہی کام دوسرے پلیٹ فارم سے میں بھی کروں، اس طرح ہم ایک دوسرے کی اصلاح بھی کرتے رہیں گے۔ مولانا نورانی نے یہ سن کر طاہر القادری سے جواباً کہا ”آپ کی بات درست ہے، آپ کو واقعی اصلاح کی ضرورت ہے“ اس پر طاہر القادری تھوڑے سے گھبرا گئے اور کہنے لگے ”غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں“ تو مولانا شاہ احمد نورانی نے جواباً کہا ”آپ نے صرف غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈر کئے ہیں۔ آپ لوگوں کو جو خواب سناتے پھر رہے ہیں، میرے خیال میں یہ صریحاً گستاخی ہے“۔ پیر اعجاز ہاشمی کے بقول مولانا شاہ احمد نورانی نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے طاہر القادری سے کہا ”مجھے تو ڈر ہے آپ کل کو کہیں نبوت کا دعویٰ ہی نہ کر دیں“۔ مولانا نورانی نے مزید فرمایا ”اپنے مفاد کیلئے لوگوں کے جذبات ابھار کر انہیں استعمال کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ آپ اس طرح لوگوں کو بیوقوف نہ بنائیں، آپ پہلے اپنی اصلاح کریں، پھر کسی دوسرے کی اصلاح کے بارے میں سوچئے گا“۔ جے یو پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل قاری زوار بہادر کے بقول طاہر القادری نے مولانا نورانی سے یہ بھی کہا ”پاکستان کے لوگوں میں عشق رسالت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں، ہمیں چائے ہم لوگوں کو ایکسپلائٹ کر کے انقلاب لائیں“۔ پیر اعجاز ہاشمی کے مطابق یہ ساری گفتگو مولانا نورانی نے ان کے گھر میں بیٹھ کر طاہر القادری سے فون پر کی تھی جو اس وقت باقاعدہ ریکارڈ بھی کی گئی تھی۔ ان کے بقول مولانا نورانی نے جب طاہر القادری کو آڑے ہاتھوں لیا تو انہوں نے دوبارہ ملاقات کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ پیر اعجاز ہاشمی نے بتایا اس گفتگو کے بعد طاہر القادری، مولانا نورانی سے ملنے سے گھبرانے لگے کبھی کہیں اتفاقاً آمنا سامنا ہو بھی جاتا تو طاہر القادری ملنے کی بجائے کنی کترا کر نکل جاتے تھے“۔ ایک سوال کے جوراب میں پیر اعجاز ہاشمی نے بتایا طاہر القادری مولانا نورانی سے ملاقات کر کے دراصل عوام میں یہ تاثر دینا چاہتے تھے کیسی بڑی بڑی شخصیات کے ان کے ساتھ مراسم ہیں لیکن مولانا نورانی نے ان کی یہ خواہش پوری نہ کی۔ پیر اعجاز ہاشمی نے طاہر القادری کے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے کہا ”ہم انہیں اس وقت سے جانتے ہیں جب یہ جھنگ میں ایک معمولی سے لیکچرار تھے اور مولانا عبدالستار نیازی سے ملنے کیلئے جے یو پی کے دفتر واقع کرشن نگر (موجودہ اسلام پورہ) آیا کرتے تھے۔ وہ ہر ملاقات میں مولانا نیازی کے سامنے یہی رونا روتے مجھے کسی طرح لاہور لے آئیں۔ بالآخر مولانا نیازی کی کوششوں سے ان کی پنجاب یونیورسٹی لاءکالج میں پوسٹنگ ہو گئی اور ہاسٹل میں کمرہ بھی مل گیا۔ اس کے ساتھ ہی شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ مولانا عبدالقیوم ہزاروی نے انہیں شادمان ٹاﺅن کی ایک مسجد میں خطیب لگوا دیا جہاں میاں شریف نے ایک بار ان کی تقریر سنی تو وہ انہیں ”اتفاق مسجد“ لے گئے۔ پیر اعجاز ہاشمی نے بتایا ”میاں نواز شریف نے طاہر القادری کو اس قدر نوازا کہ ایک بار یہ بیمار پڑے تو ان کے حکم پر شہباز شریف انہیں علاج کیلئے بیرون ملک لے گئے تھے۔ شہباز شریف بتاتے ہیں اباجی کا مجھے حکم تھا علامہ صاحب کی خدمت کیا کرو“۔ پیر اعجاز ہاشمی کا کہنا ہے جب طاہر القادری نے سیاسی جماعت بنائی تو مولانا نیازی نے انہیں بہت روکا لیکن انہوں نے ان کی بات کو ٹھکرایا اور سیاست میں آنے کے بعد پہلی ٹکر ہی میاں شریف کے گھرانے سے لی۔