صدر اوباما سی آئی اے کو ڈرون حملوں کی اجازت نہ دیں
امریکی صدر بارک اوباما خوش قسمت نکلے کہ دوسری بار صدر منتخب ہو گئے اور نائب صدر کی ذمہ داریاں سابق سینیٹر جوبائیڈن نے سنبھال لی ہیں۔ امریکہ میں دستور ہے کہ انتخابات کے بعد صدر اور نائب صدر اپنے عہدے کا حلف 20 جنوری کو اٹھاتے ہیں لیکن امریکی حکام جانتے ہیں کہ امریکی عوام اتوار کے روز اپنی ذاتی دنیا میں مست رہتے ہیں اس لئے دونوں نے حلف تو اٹھا لیا لیکن 20 جنوری کیونکہ اتوار کے روز تھی اس لئے عوام کے ساتھ بھرپور تقریب کا اہتمام 21 جنوری بروز پیر کو کیا گیا۔ اس طرح بارک اوباما رند کے رند رہے اور ہاتھ سے.... ویسے یہاں ایک دلچسپ لطیفہ یاد آ گیا ایک امریکی صدر کسی محفل میں خطاب کے لئے آیا تو اس تقریب کے شرکاءہائی ٹی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب پندرہ منٹ گزر گئے تو آرگنائزر نے امریکی صدر سے پوچھا ” حاضرین کو مزید کچھ دیر لطف اندوز ہونے دیں یا آپ کی تقریر شروع کرا دی جائے؟ پہلی بار امریکی صدر بارک اوباما نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا لیکن اتفاق سے کوئی ایسی تبدیلی نظر نہ آ سکی جسے صحیح معنوں میں تبدیلی کہا جا سکے۔ ہاں ایک تبدیلی ضرور دیکھنے میں آئی کہ پاکستان کو دوست کا اور اتحادی کا درجہ دیا گیا اور ساتھ ہی ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا جس میں بے گناہ شہری مرتے رہے لیکن امریکیوں کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ اب واشنگٹن پوسٹ نے عین امریکی صدر کی دوسری ٹرم کا حلف اٹھانے کے موقع پر انکشاف کیا ہے کہ باقی ممالک پر تو سی آئی اے ڈرون حملے صدر کی اجازت سے کرے گی لیکن پاکستان پر ڈرون حملوں کے لئے سی آئی اے کو کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جنگل کے بادشاہ شیر کی طرح خودمختار ہے کہ بے شک بچہ دے یا انڈہ دے۔ صدر بارک اوباما کو چاہیے کہ پاکستانیوں نے جہاں اس کی انتخابی مہم میں دامے درمے سخنے بہت بڑا حصہ ڈالا ہے تو کم از کم ان کی عزت رکھتے ہوئے اپنی دوسری ٹرم میں ڈرون حملے بالکل بند کر دے، اگر ڈرون حملوں کے انتظام کرنے والوں کو مصروف ہی رکھنا ہے تو پھر افغانستان کا رخ کیا جائے جہاں آج بھی کابل میں پولیس کے چند افراد کو قتل کر دیا گیا۔
ویسے صدر بارک اوباما کو بھارتی وزیر داخلہ سیشل کمار شندے کا بیان متعدد بار غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے جس نے حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس میں پوری ذمہ داری کے ساتھ بیان دیا ہے کہ کانگریس حکومت کے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ نے باقاعدہ انتہا پسندی اور مسلمانوں سمیت دوسری اقلیتوں پر حملے کرنے کے لئے تربیتی کیمپ قائم کئے ہوئے ہیں۔ اب امریکہ سمیت پوری دنیا بتائے کہ دنیا میں سب سے انتہا پسند ہندو ہیں یا مسلمان۔ بھارتی وزیر داخلہ کے اعترافِ حقیقت کے بعد بھارت میں سیاسی بھونچال آ گیا ہے۔ بھارتی جنتا پارٹی اور کانگریس کی مخالف جماعتوں نے مطالبہ کر دیا ہے کہ بھارتی وزیر داخلہ کو وزارت سے فارغ کیا جائے اور بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی بھارتی عوام سے معافی مانگیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام شواہد اور ثبوت موجود ہونے کے باوجود بھارتی وزیر داخلہ یا سونیا گاندھی یا منموہن سنگھ معافی مانگیں۔ یہی سبب ہے کہ پیر کے روز بھی بھارتی وزیر داخلہ شندے نے کہا ہے کہ وہ اپنے بیان کو واپس نہیں لیں گے کیونکہ حقائق یہی ہیں۔ انڈین Times Now چینل پر تودوسرے لیڈروں نے بھی کہا ہے کہ ”میں تو گیارہ سال سے کہہ رہا ہوں کہ بھارتی جنتا پارٹی اور راشٹریہ سیوک سنگھ انتہا پسندوں کی تربیت کر رہے ہیں اور بدنام مسلمان سمیت دوسری اقلیتوں کو کر رہے ہیں۔ اب امید پیدا ہو گئی ہے کہ اگر ممبئی حملوں کی صحیح خطوط پر غیر جانبدارانہ تحقیق کرائی گئی تو اس میں ان دونوں پارٹیوں کے علاوہ ممبئی کے انڈر ورلڈ کا ہاتھ بھی نکلے گا کیونکہ ممبئی حملوں میں ایک فرض شناس پولیس انسپکٹر کا مارے جانا جس نے ممبئی انڈر ورلڈ کے گینگ تہس نہس کئے تھے اس کی موت سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں تھا بلکہ اس کی موت کا فائدہ صرف ممبئی کے انڈر ورلڈ کو پہنچتا ہے۔
پاکستان میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور انڈیا کو سب سے پسندیدہ ملک کا درجہ دینے والوں کی آنکھیں بھی کھل جانی چاہیں۔ دونوں ملکوں کے حالات اس انتہا پسندی سے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ پاکستانی وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم کا دورہ بھارت طے تھا لیکن اب اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اب حنا ربانی کھر مخدوم امین فہیم پر غصہ نہیں اتاریں گی کہ میں نے وعدہ کیا ہوا تھا کہ 31 دسمبر 2012ءکو بھارت کو پسندیدہ ملک کادرجہ مل جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے بھی اس کی باقاعدہ اپنے اجلاس میں اجازت دیدی تھی لیکن مخدوم امین فہیم پر بزنس کمیونٹی نے دباو¿ ڈال کر حتمی فیصلہ ہونے سے روک دیا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کو چاہیے کہ نیند کی گولیاں کھا کر آرام کرنے کے بجائے جاگے اور اس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف لگے ہوئے انتہا پسندی کے الزام کو ختم کرنے کے لئے ٹھوس پالیسی اپنائے۔