اڈیالہ لاپتہ کیس:7 افراد کی حراست غیرقانونی ثابت ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو گی: چیف جسٹس
اسلام آباد(این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریو یو بورڈ کا ریکارڈ پیش نہ کرنے پر سیکرٹری فاٹا، ڈپٹی اٹارنی جنرل کی سرزنش کرتے ہوئے اڈیالہ جیل سے لاپتہ سات قیدیوں کی رہائی سے متعلق رپورٹ 24 جنوری تک طلب کرلی جبکہ چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ خفیہ اداروں کے پاس پارہ چنار میں قید سات افراد کی مدت حراست میں اضافے کا کوئی جواز موجود نہیں، لاپتا افراد کے خلاف ثبوت پیش کریں ورنہ رہا کریں، حراست غیر قانونی ثابت ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی ، آئین سے بڑاکوئی قانون نہیں ، اکیسویں صدی میں پاکستان میں تحریری آئین موجود ہے، کسی شخص کو ٹھوس ثبوت کے بغیر حراست میں نہیں رکھا جا سکتا ، اٹارنی جنرل قیدیوں کی رہائی سے متعلق ہدایات حاصل کریں ورنہ عدالت حکم جاری کرے گی ۔ اڈیالہ جیل سے لاپتہ اور قتل ہونے والے قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں منگل کوسپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت شروع ہوئی تو وکیل استغاثہ اور خفیہ ایجنسیوں کے وکیل راجہ ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ یہ افراد فوجی قافلوں پر حملوں میں ملوث ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا بھی تو مقدمہ چلتا ہے تو ان کے خلاف تو اب تک کوئی مقدمہ کسی بھی عدالت میں زیر سماعت کیوں نہیں ؟چیف جسٹس نے کہاکہ بغیر ثبوت کے ان افراد کو حراستی مرکز میں رکھنا غیر قانونی ہے اور اگر ان افراد کی حراست غیر قانونی ثابت ہوئی تو ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ عدالتوں کو ختم کر دیا جائے اور ان کے اختیارات بھی اپنے پاس رکھے جائیں۔وکیل استغاثہ راجہ ارشاد نے کہا کہ اِن افراد کے خلاف ایسے ثبوت نہیں ملے جن کی بنا پران کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ہو اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ایسی شہادتیں نہیں ہیں جس پر انہیں حراست میں رکھا جائے تو پھر یہ فیصلہ کس کا تھا اور اگر اس طرح کا کوئی فیصلہ ہے کہ انہیں غیر معینہ مدت کےلئے حراستی مرکز میں رکھا جائے تو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے۔اس کے جواب میں کوئی بھی حکم نامہ پیش نہیں کیا جا سکا۔بنچ میں موجود جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ریویو بورڈ جو ہر 120 دنوں کے بعد ایسے قیدیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اس کے اجلاسوں کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا جائے تاہم کمرہ عدالت میں موجود فاٹا کے حکام نے اس بارے میں کوئی ریکارڈ عدالت میں پیش نہیں کیا جس پر عدالت نے سخت برہمی کااظہار کیا اس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کھڑے ہو کر عدالت سے کہا کہ اگر عدالت کہے تو آئندہ دس روز میں ریویو بورڈ کا اجلاس بلا کر ان قیدیوں سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے کہا کہ جو بھی کرنا ہے اس بارے میں جلدی کیا جائے اگر ریویو بورڈ کا اجلاس بلانا ہے تو بلائیں۔ اس کے بعد عدالت پھر حکم جاری کرے گی اور اگر ان افراد کی حراست غیر قانونی ثابت ہوئی تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائز کیوں نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 26 جون2011سے قیدی حراستی مراکز میں ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قیدیوں کے خلاف ثبوت تھے تو انہیں جیل بھیجنا چاہیے تھا تاہم قیدیوں کی حراست غیرقانونی ہے انہیں ایک سکینڈ بھی نہیں رکھ سکتے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس اور ایجنسیوں کے وکیل کا مکالمہ ہوا۔ جس کے دوران راجہ ارشاد نے کہا کہ آج تک کسی دہشتگرد کو سزا نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ زیر حراست افراد کے خلاف ثبوت ملے تو وہ حراستی مرکز نہیں جیل جائیں گے چیف جسٹس نے کہاکہ زیر حراست افراد سے گرنیڈ ، کلاشنکوف اور میگزین کی برآمدگی کا بیان بظاہر غلط ہے ، کسی شخص سے چاقو بھی برآمدہو تو اسے عدالت میں پیش کیا جائےگا، چیف جسٹس نے آئی ایس آئی کے وکیل راجا ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں پاکستان میں تحریری آئین موجود ہے ، آپ فرما رہے ہیں کہ اخلاقی بنیادوں پر حراست میں رکھا گیا۔فیئر ٹرائل اور بنیادی حقوق سمیت تمام شقیں نکلوا دیں، آپ تو چاہیں گے کہ ملک میں عدالتیں نہ ہوں اور ان کے اختیارات بھی واپس لے لیے جائیں۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ جن ملزمان کو حراست میں رکھا گیا ہے ان پرالزامات ہیں، آئندہ دس دن میں ریویو بورڈ کا اجلاس بلا کران کے بارے میں فیصلہ کرلیتے ہیں مہلت دی جائے۔ سپریم کورٹ نے اڈیالہ جیل سے لاپتہ سات قیدیوں کی رہائی سے متعلق رپورٹ پیش کر نے کا حکم دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کی استدعا پر کیس کی سماعت 24 جنوری تک ملتوی کردی۔