بھارت کیلئے جنرل مشرف کی جرات بیانی
چند روز پہلے بھارتی ٹی وی پر ایک انٹرویو کے دوران معروف بھارتی اینکر کی روایتی پاکستان دشمنی اور مخصوص ہٹ دھرمی کے جواب میں سابق صدر پاکستان اور آرمی چیف جنرل مشرف نے جرا¿ت مندانہ سچائیوں کے ساتھ جس طرح منہ توڑ جواب دئیے۔ اس سے دل خوش ہو گیا ہے۔ بھارتی اینکر حواس باختہ ہو گیا۔ یہ وہ سچ ہے جس کا سامنا بھارتی سیاستدان دانشور اور میڈیا کے لوگ نہیں کرنا چاہتے۔ نہیں کر سکتے۔ وہ پاکستان میں بھارت دوستوں کی غیر حقیقی اور مفاد پرستانہ پالیسی اور گفتگو کے عادی ہیں۔ ایسے بے شرم پاکستان بھارت دوستی کا راگ گاتے ہیں۔ نفرت کرنے والے احساس برتری میں مبتلا بھارتی جانتے ہیں کہ پاکستان کے یہ چھوٹے لوگ مصلحت اور مصالحت کو ملا جلا دیتے ہیں۔ مصنوعی احساس برتری بہت گہرا احساس کمتری ہوتا ہے۔ بھارت پاکستان سے ڈرتا ہے مگر اداکاری ڈرانے کی کرتا ہے۔ بھارتی اینکر کو ایک کمانڈو کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اور کمانڈو کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ جس طرح مجاہد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ بھارتی اینکر نے ایک مشکوک سوال کیا کہ پاک فوج نے کسی بھارتی سپاہی کی لاش کی بے حرمتی کی۔ جنرل مشرف جذبات میں آ گئے۔ کبھی کبھی جذبات میں آنا ضروری ہے جو آدمی غیرت مندانہ سچے جذبات نہیں رکھتا وہ بے غیرت ہوتا ہے۔ جنرل نے کہا کہ یہ پاک فوج کا طریقہ نہیں۔ یہ تو بھارتی فوج کی عادت ہے۔ پاک فوج دنیا کی ایک بہترین فوج ہے پوری طرح ڈسپلنڈ اور منظم ہے۔ زیادتیاں صرف بھارت کرتا ہے۔ بھارتی اینکر نے جب یہ کہا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں جماعت الدعوة کے پروفیسر حافظ سعید کا نام بھی لیا۔ جنرل صاحب نے کہا کہ ہماری عدالتوںں نے حافظ صاحب کو باعزت بری کیا۔ بھارت مطلوبہ ثبوت ہی پیش نہیں کر سکا مگر یہ تو بتاﺅ کہ بھارت نے بال ٹھاکرے کے خلاف کبھی کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ بال ٹھاکرے تو مر گیا مگر اب بھی کئی چھوٹے چھوٹے بال ٹھاکرے موجود ہیں۔ جنرل صاحب نے بال ٹھاکرے کو ٹھوکر پہ رکھا اور کہا کہ بھارت میں کبھی انتہا پسند تنظیم شیو سینا کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان میں اچھی مہمان نوازی ملی۔ مگر بھارت والے ہماری ہاکی ٹیم کو کھیلنے نہیں دیتے۔ ہمارے فنکاروں کے خلاف جھوٹے مقدمات چلائے جاتے ہیں۔
پروفیسر سعید نے کہا ہے کہ امریکہ بھارتی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈرون حملے کرے۔ بھارت کے علاوہ افغانستان میں بھی ہندو دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں۔ جہاں سے بھارت اور امریکہ کے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف الزام تراشیوں کا زبردست جواب دیا۔ آئی ایس آئی کی بات کی گئی تو جنرل مشرف نے ”را“ کے خلاف ایک تقریر کر دی۔ ”را“ آجکل زیادہ تر پاکستان میں سرگرم ہے۔ بھارت کسی ہمسائے کے ساتھ ٹھیک نہیں وہ ایک بُرا ہمسایہ ہے اس علاقے میں تمام چھوٹے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ جارحانہ سلوک بھارت نے روا رکھا ہوا ہے۔ پاکستان چونکہ بھارت کے مقابلے کا ملک ہے۔ ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی بھی بھارت سے بہت بہتر ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کی سیاسی اور حکومتی بزدلی اور امریکی غلامی کی وجہ سے بھارت کے ساتھ دوٹوک اور کھری کھری بات نہیں ہو سکتی۔ اب پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کو یہ خاموشی توڑنا چاہئے اور ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہئے۔ جنرل مشرف نے بھارتی اینکر سے کہا کہ تم میں صبر نہیں تحمل نہیں۔ بھارت بڑا ملک ہے تو اسے دل بھی بڑا کرنا چاہئے۔ تنگ نظری نے بھارت کو کہیں کا نہیں رکھا۔
جنرل صاحب کی اس واشگاف گفتگو کے بعد بھارتی وزیر داخلہ نے پورا سچ اگل دیا۔ بھارت میں جو کچھ ہوتا ہے وہ خود بھارتی انتہا پسند اور بھارتی دہشت گرد کرتے ہیں مگر الزام پاکستان کے خلاف لگا دیتے ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ نے واضح طور پر شیو سینا کے علاوہ بی جے پی کا نام لیا۔ شیو سینا تو ایک ہندو انتہا پسند تنظیم ہے مگر بی جے پی تو ایک سیاسی پارٹی ہے کئی بار اقتدار میں بھی آ چکی ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے حوالے سے بھی بھارتی وزیر داخلہ نے بھارتیوں کو آئینہ دکھایا۔ جس کا فیصلہ نہیں ہو رہا ہے۔ مگر اس کے لئے بھی پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدانوں کا رویہ بہت مدافعانہ اور بزدلانہ ہے۔
یہ بات خاص طور پر اہم ہے کہ نوازشریف جس بھارتی وزیراعظم کی لاہور آمد اور مینار پاکستان پر حاضری کا ذکر کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے سارے مسائل حل کرنے کا معاہدہ ہو گیا تھا۔ اس معاہدے میں کشمیر کا ذکر بہت غیر اہم طریقے سے کیا گیا تھا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ واجپائی صاحب بی جے پی کے وزیراعظم تھے۔ وہ کس طرح پاکستان کے لئے نرم رویہ رکھ سکتے تھے۔ اب بھی نوازشریف کی پالیسی پاکستانی حکمرانوں سے مختلف نہیں۔ وہ بھارت کے ساتھ ویزا کی پابندیاں ختم کرنے کی تجویز دے چکے ہیں۔ عمران خان بھی بھارت کے لئے ایسے خیالات رکھتے ہیں جو ایک پاکستانی کو زیب نہیں دیتے۔ آغاز میں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ آگرہ میں واجپائی جی نے بھی بہت غیر دوستانہ سلوک کیا تھا اور وہ آدھی رات کے بعد پاکستان واپس آ گئے تھے۔
کچھ عرصہ بعد جنرل مشرف نے بھارت کے لئے دوستانہ پالیسی اختیار کی جس کا جواب ایک غیر دوستانہ رعونت کے ساتھ بھارت کی طرف سے ملا۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کا حکمران بنتے ہی بھارت کے لئے ہمارے لوگوں کے دل بھیگ جاتے ہیں۔ ان کی اس نیم دلانہ پالیسی نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ کے لئے فرمانبردارانہ معاملہ تو ایسا ہے کہ شاید اس کے بغیر ہمارے حکمرانوں کے لئے کوئی چارہ¿ کار نہیں۔ اب بھارت کو امریکہ کا نمائندہ سمجھ کر اپنے مفادات کو ترک کر دینے کی پالیسی پاکستان دشمنی ہے۔
یہ بات جنرل مشرف کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے کہ جب تک وہ صدر پاکستان تھے۔ تو وہ ایسی باتیں نہ کر سکتے تھے جو انہوں نے اب بھارتی اینکر کے ساتھ کیں۔ ہم بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے مگر بھارت کی طرف سے کبھی ایسی خواہش سامنے نہیں آئی۔ ہمارے حکمرانوں کو وہ دبا کے رکھنا چاہتا ہے اور اس میں کامیاب ہے۔ کشمیر جو ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے بغیر بھارت سے تجارت اور دوستی بالکل غیر ضروری ہے۔ تجارت آپس میں اعتماد کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ بھارت کی نفرت ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے۔ اس نے پاکستان کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ پاکستان کے لوگوں میں بھی ایک نفرت ہے جو کبھی کم نہیں ہوئی۔ 65ءکی جنگ ستمبر اس کے لئے بہت بڑی مثال ہے۔ اب کرکٹ میچ میں پاکستان کسی ملک سے ہار جائے مگر پاکستانیوں کو یہ قبول نہیں ہے کہ وہ بھارت سے ہار جائے۔ بھارت بھی ہمارے مقابلے میں اس حوالے سے زیادہ جذباتی ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ پہلے دل صاف کرنا ضروری ہے اور اس میں بھارت کو آگے بڑھ کر کچھ کرنا ہو گا۔ بھارت سے اس طرح کوئی امید نہیں۔ امن کی آشا چلانے والوں کو بھارت کی نفرت انگیز بھاشا کے بعد کچھ سوچنا چاہئے۔ پہلے دشمنی تو ختم کرو۔ دوستی یکطرفہ بالکل نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں بھارت دوستی کا بینڈ بجانے والوں کو یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ وہ پاکستانی ہیں۔ ہمارے کسی اینکر پرسن نے جنرل مشرف کی بھارت کے خلاف جرا¿ت رندانہ کا ذکر نہیں کیا۔ کسی سیاستدان حکمران نے بیان نہیں دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر زرداری اندر سے بھارت کے خلاف ہیں۔ وہ کوئی ایسی کامیابی ہی بھارت کے من موہن سنگھ کے خلاف حاصل کریں؟ شاید وہ صرف پاکستانی سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں، صحافیوں وغیرہ کو پریشان کرنے میں اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ جنرل کیانی کبھی کبھی ایسے بیانات دیتے ہیں اور اقدامات کرتے ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والوں کو حوصلہ دیتے ہیں۔ وہ بھارت کے لئے جنرل مشرف کی باتوں پر غور فرمائیں ایسی باتیں ریٹائر ہونے کے بعد کی جائیں تو بھی اچھا ہے۔ اگر حاضر سروس جرنیل اور حکمران کرے تو اور بھی اچھا ہے۔ ہمارے رحمان ملک سے بھارتی وزیر داخلہ اچھا ہے کہ اس نے بھارت کے حوالے سے سچ بولا۔ یہ باتیں کبھی ہمارا وزیر داخلہ نہیں کر سکتا۔ وہ ایسی جرات کر ہی نہیں سکتا۔ بہرحال جنرل مشرف نے ہمیں خوش کر دیا ہے۔