انتخابات اور وسوسے ‘ مسلم لیگ ن کا دو ٹوک کردار
فرخ سعید خواجہ
بظاہر سازشی قوتیں شکست کھا گئی ہیں اور اب عام انتخابات کا آغاز دکھائی دیتا ہے لیکن جب سینٹ میں کھڑے ہو کر رضا ربانی جیسا سنجیدہ شخص کہے کہ سازش جاری ہے اور تین سالہ حکومت لانے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو اُن کی بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ایک بات طے ہے کہ درپردہ سازشیں کرنے والے کامیاب ہو گئے تو پھرپاکستان میں جمہوریت کا پودا کبھی تناور درخت کی شکل اختیار نہیں کر سکے گا۔ عوام کے ووٹ کی چھلنی سے نکل کر جو بھی حکومت آئے گی وہ جمہوریت کو مضبوط سے مضبوط تر بنائے گی۔ یوں دو ایک عام انتخابات حکومتوں کی مدت پوری ہونے کے بعد ہو جائیں تو ہماری آنے والی نسل کو اچھی جمہوریت دیکھنے کو مل جائے گی۔
ان دنوں لاہور سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔ نوازشریف، شہبازشریف، چودھری شجاعت، چودھری پرویز الٰہی، سید منور حسن اور عمران خان کے ڈیرے تو لاہور میں تھے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی لاہور میں رونق لگا دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ الیکشن 2002ءمیں پاکستان عوامی تحریک کی بہت بُری طرح ناکامی کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اسے منہاج القرآن کی ذیلی تنظیم میں تبدیل کر دیا تھا۔
چودھری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید نے چودھری ظہور الٰہی پیلس میں دو روز قبل جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری کا دفاع کیا اُس سے یہ تو واضح ہو گیا کہ مسلم لیگ (ق) اور ڈاکٹر صاحب میں محبت ہو گئی ہے۔ جبکہ پریس کانفرنس کے بعد ہونے والی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ آنے والے الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ق) اور پاکستان عوامی تحریک اتحادی ہوں گے۔ عام خیال یہ ہے کہ ان کے اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ بھی شامل ہوگی مگر پاکستان تحریک انصاف کے بیشتر سرکردہ رہنما¶ں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ق) والوں کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل ہو۔ بہرحال ہم ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن آخری فیصلہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے کرنا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کو اپنے پارٹی انتخابات پہلے ہی گلے پڑ ے ہوئے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے الیکشن کے لئے اُن کے کروڑوں ووٹروں کی فہرستوں میں جو غلطیاں ہوئیں اُس کے باعث تاحال پنجاب میں پارٹی الیکشن نہیں ہو سکے ہیں۔ البتہ پارٹی میں قیادت کے حصول کے لئے رسہ کشی جاری ہے۔ لگ بھگ دو ماہ پہلے احسن رشید اور عبدالعلیم نے اپنے حامیوں کا ایک کنونشن لاہور میں یونٹی گروپ کے زیر اہتمام کیا تھا جس میں صوبے بھر سے ہزاروں لوگ اور پارٹی کی پنجاب میں تمام قابل ذکر قیادت شریک ہوئی تھی اور اب دو دن پہلے اعجاز چودھری، میاں محمود الرشید اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے نظریاتی گروپ کے زیراہتمام پارٹی عہدیداران کا کنونشن منعقد ہوا ہے۔جس میں پانچ سو کے لگ بھگ لوگ شامل تھے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کا دعویٰ ہے کہ وہ کالج دور سے آج تک کوئی الیکشن نہیں ہاریں مگر اس مرتبہ اُن کےلئے اپنا یہ ریکارڈ بچانا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ پارٹی کے اندر اور باہر پارٹی الیکشن کی افادیت کم اور نقصان زیادہ کے باوجود ڈاکٹر یاسمین راشد کا کنونشن میں کہنا تھا کہ پارٹی الیکشن میں نچلی سطح پر رابطے سے عام انتخابات کے امیدواروں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ دعوے اپنی جگہ حقیقت وقت آنے پر ہی معلوم ہوگی۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف ایک مدبر کی حیثیت سے سیاست میں اپنا مقام مستحکم کرتے جارہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں اُن کی شرکت اور اے پی سی کے فیصلوں کے بعد اُن کا جاتی عمرہ میں ملک کی ٹاپ اپوزیشن لیڈرشپ کواکٹھا کرنا سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ اور فیصلہ کن کردار ثابت ہوا ہے۔ پیر صاحب پگارا کی جاتی عمرہ میں اُن سے ملاقات کے بھی پاکستان کی سیاست میں دوررس اثرات مرتب ہوں گے بالخصوص سندھ کی سیاست میں اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو سے بھونچال آگیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اگرچہ اپنی پارٹی کے رہنماﺅں کی ڈیوٹی لگا دی ہے کہ پیر صاحب پگارا کو ”نرم“ کریں تاکہ وہ خود بھی اُن سے جاکر مل سکیں لیکن لگتا ہے کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ سندھ کی سطح پر مسلم لیگ فنکشنل کا جمعیت علماءاسلام (ف) اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے اتحاد مسلم لیگ (ن) کے لیے نیک فال ثابت ہوگا۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ پہلے ہی سے نوازشریف کی مسلم لیگ کے اتحادی ہیں۔ ارباب غلام رحیم کی مسلم لیگ ہم خیال بھی نواز شریف کی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد میں شامل ہو چکی ہے اس طرح سندھ میں ان جماعتوں کے براہ راست اور بالواسطہ اتحاد سے پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات بڑھتی جائیں گی۔
اِدھر پنجاب بالخصوص لاہور کو فتح کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے مورچہ فریال تالپور سے لے کر میاں منظور وٹو کے حوالے کردیا ہے۔ ماڈل ٹاﺅن میں میاں منظور وٹو کے قائم کردیا پیپلزپارٹی کی پنجاب آفس میں الیکشن سیل قائم کردیا گیا ہے۔ معروف کشمیری لیڈر اور لاہور کے صنعتکار دیوان غلام محی الدین، تنویر اشرف کائرہ، منیر احمد خاں وہاں سے کوئی کمال دکھانے کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع تصدیق کررہے ہیں کہ صدر زرداری کم از کم الیکشن تک لاہور میں ڈیرے ڈالنے کا کوئی پروگرام نہیں رکھتے۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو پیپلزپارٹی اِس کا ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی جماعت اسلامی کے ساتھ دوستی کا احیاءجماعت اسلامی کے حلقوں میں اچھی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اگرچہ عمران خان بھی جماعت اسلامی سے راہ و رسم رکھے ہوئے ہیں لیکن نواز شریف نے جس تیزی کے ساتھ جمعیت علماءپاکستان نورانی، جمعیت علماءاسلام (ف) سے تعلقات کو بہتر بنایا ہے اُس سے یہ غالب امکان ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کی اکثریت آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے اتحادیوں کی شکل ہی سیاست میں اہم کردار ادا کریں گی۔ جہاں تک نواز شریف کو روکنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور اُس کی کٹھ پتلیوں کا تعلق ہے وہ بھی ایک حقیقت ہے۔ ”گٹ نواز شریف “ آپریشن شروع ہو چکا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس کا کس طرح مقابلہ کرے گی اور مخالفین کو کس طرح شکست دے گی یہ اب اس کی سیاسی بصیرت کا امتحان ہوگا۔