• news

ایم کیو ایم ا ور اے این پی کا نیا رومان

شہزاد چغتائی
25لاکھ نفوس پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاﺅن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی منظر امام کے سفاکانہ قتل کے بعد ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان فاصلے قربتوں میں تبدیل ہو گئے اور دونوں جماعتوں نے طالبان اور شدت پسندوں کے خلاف ہاتھ ملا لیا۔ منظر امام کے قتل کی ذمہ داری بیک وقت طالبان اور لشکر جھنگوی نے قبول کرلی تھی۔ منظر امام پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے دوسرے رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ اگست 2010ءمیں رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر نارتھ ناظم آباد میں قتل کر دیئے گئے تھے۔رضا حیدر کے قتل کے الزام میں شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ منظر امام دو سال قبل رضا حیدر کی خالی نشست پر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے منظر امام اور ان کے گارڈوں کے قتل پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا جس کے بعد کراچی دو روز تک بند رہا منظر امام کو طاہر القادری کا دھرنا ختم ہونے سے چند گھنٹے قبل قتل کیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے تصدیق کی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی کو طالبان نے قتل کیا ہے انہوں نے کہا کہ متحدہ نے جب لانگ مارچ میں شرکت کا اعلان کیا تھا تو طالبان نے لانگ مارچ پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا بعد میں انہوں نے منظر امام کو قتل کر کے متحدہ قومی موومنٹ کو لانگ مارچ کی حمایت کی سزا دیدی۔ کراچی میں طالبان کے حملوں کے بعد سکیورٹی اداروں کے لیے نئے چیلنج نے جنم لیا ہے۔ ایم پی اے منظر امام کے قتل کے بعد اے این پی کے علاقائی عہدیدار دین محمد آفریدی پر بموں سے حملہ کیا گیا جس میں وہ تو بال بال بچ گئے ہیںلیکن ان کے صاحبزادے سمیت کئی افراد زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی اداروں نے جن شخصیات کو احتیاط کا مشورہ دیا ہے ان میں مصطفی کمال‘ واسع جلیل‘ حماد صدیقی‘ وسیم اختر‘ حیدر عباس، پیپلز پارٹی کے فیصل رضا اور ایس ایس پی چوہدری اسلم شامل ہیں۔ منظر امام کی نماز جنازہ میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے شرکت کر کے دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جنگ بھی ایک ہونے کا اعلان کیاہے ۔کراچی میں جہاں اے این پی سندھ کے سیکریٹری جنرل بشر جان نے ایم پی اے منظر امام کی نماز جنازہ میں شرکت کی وہاں اسلام آباد میں اے این پی کے رہنما افراسیاب خٹک نے ایم کیو ایم کو اے این پی کے زیر اہتمام فروری میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے دی ہے جبکہ ایم کیو ایم نے اے پی سی میں شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ درحقیقت اے این پی بڑے پیمانے پر طاقت کا مظاہرہ کر کے بین الاقوامی قوتوں کو پیغام دینا چاہتی ہے۔ چند روز پہلے تک اے این پی کے رہنما ایم کیو ایم کا نام سننے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن فاروق ستار سے ملاقات کے بعد افراسیاب خٹک نے کہا کہ ایم کیو ایم سے ہمارا کوئی نظریاتی اختلاف نہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان جرائم پیشہ افراد غلط فہمیاں پیدا کرتے رہے ہیں۔دونوں جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کراچی کے امن کے لیے نیک شگون ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری بھی لانگ مارچ کے دوران ملک میں دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی بنانے کا حساس معاملہ زیر بحث لا چکے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کچھ عرصے قبل نائن زیرو پر پختونوں کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا آج سے پختونوں کو جان ومال کی حفاظت اُردو بولنے کی ذمہ داری ہے تو شہریوں نے ان کی تقریر کا خیر مقدم کیا تھا۔ اب دونوں جماعتیں دو قدم آگے بڑھی ہیں۔ شہری دونوں جماعتوں کے اس عمل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایم پی اے منظر امام کے قتل سے نئی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔کراچی کے طالبان بیک وقت اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ سے ناراض ہو گئے ہیں جس کے بعد دونوں جماعتیں متحد ہو گئی ہیں۔ طالبان نے کراچی کے مختلف علاقوں میں اے این پی کے دفاتر بند کرا دیئے ہیں اور اے این پی نے بھی اپنے کارکنوں کے قتل کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔ بعض علاقوں میں کیبل بند ہیں، پتلون قمیض پہننے اور حجام کی دکانوں پر شیو بنانے پر پابندی ہے گزشتہ دنوں طالبان نے جمعیت علماءاسلام کو بھی وارننگ دی تھی کچھ عرصہ قبل جب ایم کیو ایم کراچی میں طالبانائزیشن کا شور مچا تی تھی تو اے این پی طالبان کا دفاع کرتی تھی اور متحدہ قومی موومنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتی تھی۔
دوسری جانب مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد نواز شریف نے ہالہ میں پیپلز پارٹی کے گڑھ میں جلسہ عام کے بعد مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد نواز شریف نے بیک وقت حکمرانوں اورلانگ مارچ کے حامیوں کو سخت پیغام دیا ہے نواز شریف نے طاہرالقادری کے مطالبات کو ناقابل قبول قرار دے کر نئی بحث بھی چھیڑ دی ۔ نواز شریف نے اعلان کیا کہ چند ہزار افراد کو 18کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ نواز شریف کی سندھ آمد کے بعد صدر آصف علی زرداری نے لاہور جانے کااعلان کیا صدر ڈیڑھ ماہ سے کراچی میں مقیم ہیں۔ صدر کے مرشد نے ان کو پہاڑوں سے دور اور سمندر کے نزدیک رہنے کامشورہ تھا جو کہ ان کے کام آگیا اوران کی حکومت جاتے جاتے بچ گئی صدر ان دنوں فنکشنل مسلم لیگ اور مسلم لیگ(ن) کے اتحاد سے پریشان ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پیر پگارا کو مسلم لیگ(ن) کے ساتھ اشتراک سے روک دیاجائے۔ لاہور میں پیرپگارا اور نواز شریف کی ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کے پیرپگارا کو منانے کے لئے کئی کوششیں جاری ہےں۔ پیپلز پارٹی اس ضمن میں مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی کو دباﺅ میں لانے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ جس کی مثال جہلم سے مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان قومی اسمبلی اورگورنر پنجاب کے صاحبزادوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت ہے ۔

ای پیپر-دی نیشن