اقرا کی ایک خوبصورت تفسیر آئی ٹی یونیورسٹی
تمام عالم اسلام میں عید میلاد کا دن مذہبی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن حضور رحمتوں کے پیامبر بن کر اس دنیا میں آئے اور ان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ ان کی آمد کے بعد انبیا کرام کا سلسلہ موقوف ہو گیا اور قیامت تک قرآن حکیم آخری الہامی کتاب قرار پائی۔ .... اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا اب یہ بات بھی چھپی ہوئی نہیں ہے کہ کیمیا کے فن اور علم سے کسی بھی دھات کو سونا بنایا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کا بھی یہی معجزہ ہے کہ اس کی آیات پر عمل کرکے عام انسان ایک مرد مومن بن سکتا ہے جس کے لئے جنت کے دروازے بھی کھلے ہیں اور دنیا میں بھی اس کی سرداری ہے لیکن یہ سب کچھ انسان حضور کے اسوہ حسنہ کو اپنا کر ہی حاصل کر سکتا ہے پہلی وحی اقرا سے شروع ہوئی ہے اور مسلمانوں کے عروج میں اقرا نے کلیدی کردار ادا کیا اور جب مسلمانوں نے اقرا کی اہمیت سے منہ پھیر لیا تو پھر مخالف اقوام کو غلبہ حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ اس طرف اشارہ کرکے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں.... مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباءکی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ آج اگر پاکستان کے معاشی چڑھاﺅ کا اتار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ بحیثیت قوم پاکستان بننے کے بعد اقرا کو ہم نے چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اقتدار نااہل لوگوں کے پاس بھی آ گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی بھی اقرا ہی کی تفسیر ہے اور خوش قسمتی کی بات ہے کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے آئی ٹی کی اہمیت سمجھتے ہوئے پنجاب میں پہلی انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی قائم کر دی ہے جو فی الحال تو ارفع سوفٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک میں قائم کی گئی ہے لیکن اس کے بعد اس کا اصل کیمپ سو ایکڑ میں قائم کیا جائے گا جس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ آئی ٹی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر عمرسیف نے نوائے وقت کو بتایا پاکستان خصوصاً پنجاب کی معاشی ترقی کا دارومدار انفارمیشن ٹیکنالوجی پر بھی ہے۔ دوسرے شعبوں کی نسبت اس جدید شعبہ میں زیادہ سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنے اندر کھپانے اور روزگار مہیا کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس وقت پاکستان آئی ٹی کے ذریعہ دو ارب ڈالر کما رہا ہے جب کہ انڈیا سو ارب ڈالر کماتا ہے۔ پاکستان اس شعبہ میں کتنی ترقی کر سکتا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیجئے کہ انڈیا کی صرف ایک سوفٹ وئیر کمپنی ٹاٹا دس ارب ڈالر کماتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی کمپنی نے 350 افراد کو روزگار مہیا کیا ہے تو اکیلی ٹاٹا کمپنی نے تین لاکھ افراد کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں روزگار فراہم کیا ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تین سو اعلی تعلیم یافتہ آئی ٹی گریجویٹس موجود ہیں جب کہ ضرورت بہت زیادہ ہے اس مقصد کے لئے آئی ٹی یونیورسٹی نے کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے سیشن کے لئے چھ سو افراد نے داخلہ کے لئے رجوع کیا تھا لیکن صرف 64 افراد کو داخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے پچاس فیصد سے زیادہ کو سکالر شپ دیا گیا ہے۔ وزیراعلی شہباز شریف کی سختی سے ہدایت ہے کہ ذہین وفطین طلبا کو میرٹ پر منتخب کیا جائے۔ اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی جائے کہ وہ فیس دے سکتا ہے یا نہیں، جو ذہین طلبا کسی وجہ سے فیس دینے کے قابل نہیں ہیں لیکن ان کا رجحان آئی ٹی کے شعبہ کی طرف ہے اور ٹیسٹ میں کوالیفائی کرتے ہیں ان کے تمام اخراجات پنجاب حکومت برداشت کرے گی۔ پنجاب میں تعلیمی شعبہ کے اندر کمپیوٹر کا استعمال روزبروز مقبول ہو رہا ہے خصوصاً پرائیویٹ تعلیمی ادارے تو آغاز ہی میں بچوں کو کمپیوٹر سے آگاہی دے رہے ہیں جب کہ سرکاری سکولوں میں بھی ہزاروں کے حساب سے کمیپوٹر لیب قائم کر دی گئی ہیں اور دو لاکھ لیپ ٹاپس تقسیم کرنے کی وجہ سے کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبا میں بھی آئی ٹی کا شعبہ مقبول ہوتا جا رہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ مقامی ضرورت اور انٹرنیشنل ڈیمانڈ کے مطابق مختلف پروگرام گھر بیٹھے نہ صرف تخلیق کر سکتے ہیں بلکہ انہیں فروخت کرکے معقول آمدنی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اب آئندہ جو لیپ ٹاپس آ رہے ہیں ان کی سمگلنگ پنجاب میں ہو گی اور جلد ہی یہاں کمپیوٹر ہارڈوئیر کی انڈسٹری بھی قائم ہو جائے گی۔ بورڈ کے امتحانات کا سسٹم درست کرنے کے لئے تمام پروگزام ہم نے ہی تیار کرکے دیئے ہیں اور کمپیوٹر کے ایک سوفٹ وئیر کے ذریعہ جتنی غلطیاں پکڑی ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پنجاب حکومت کی فعال اور ترقی پسند قیادت کی وجہ سے آئی ٹی یونیورسٹی پنجاب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی بنیاد رکھ دے گی جس کے معاشی فوائد کچھ عرصہ بعد ہر سطح پر محسوس کئے جائیں گے۔