اسمبلیوں کی تحلیل ‘ الیکشن تاریخ کا اعلان10 دن میں ہو گا : حکومت ‘ طاہر القادری ‘ الیکشن کمشن کے معاملہ پر ڈیڈلاک
لاہور (سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں) حکومتی اتحادی ٹیم اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان مذاکرات میں اسمبلیاں 16 مارچ سے پہلے تحلیل کرنے، انتخابات 90 دن میں کرانے، نگران وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے نام متفقہ طور پر طے کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ الیکشن کمشن کی تحلیل اور ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے ڈیڈ لاک برقرار ہے، اور اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے قبل حکومتی ٹیم اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان طے پاجانے والے معاہدے کو قانونی شکل دی جائے گی، اس ضمن میں گزشتہ روز ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ حکومتی ٹیم کے منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں مذاکرات ہوئے اور اگلے مذاکرات کیلئے 31جنوری کو مذاکرات کی تاریخ کا فیصلہ ہوا، الیکشن کمشن کو تحلیل کئے جانے اور وزیراعظم و وزرائے اعلی کے صوابدیدی فنڈز منجمد کئے جانے کے دو نکات پر اتفاق رائے نہ ہو سکا جس پر طاہر القادری نے کہا ان کے پاس سپریم کورٹ کے پاس جانے کے علاوہ دیگر آپشنز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا الیکشن کمشن کے 4 ممبران کی تقرریاں غیر آئینی ہیں جبکہ قمر الزمان کائرہ نے واضح کیا فی الحال فنڈز نہیں روکے جا سکتے پارلیمنٹ کو کام سے نہیں روکا جا سکتا۔ فنڈز منجمد کرنے کا مطالبہ اچھا ہے مگر یہ ممکن نہیں حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی فنڈز دئیے تاہم صوبائی حکومت کے فنڈز پر وفاقی حکومت کا کنٹرول نہیں اور نہ ہی صوبوں کے معاملات میں دخل اندازی کی جا سکتی ہے۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق حکومتی وفد اور پاکستان عوامی تحریک کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کو کامیاب قرار دے کر 31جنوری کو مذا کرات کے دوسرے مرحلے کی تاریخ طے کرنے پر اتفاق کیا گیا جس میںجن نقطوں پر ڈیڈ لاک برقرار ہیں ان پر اتفاق رائے پیداکرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومتی اتحاد کی موجودگی میں سپریم کورٹ سے رابطے سمیت کسی بھی ایکشن کے استعمال کا عندیہ بھی دیا گذشتہ روز مذاکرات کے دو دور ہوئے جس میںاتفاق کیا گیا نگران وزیراعظم اور صوبوں کے وزراءاعلی کا انتحاب پاکستان عوامی تحریک اور حکومت کی مشاورت سے ہو گا سات سے دس دن میں اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ ، الیکشن کی تاریخ کے اعلان اور امیدوار کی سکروٹنی کےلئے ایک ماہ کے وقت پر بھی مکمل اتفاق پایا گیا اور حکومتی وفد کی جانب سے 16مارچ سے پہلے وفاقی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی جبکہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے حوالے سے قمر الزمان کائرہ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف سے بات چیت کا وعدہ کیا گیا الیکشن کمشن کی تحلیل، وزیراعظم اور وزراءاعلی کے صوابدیدی فنڈز کے استعمال پر مکمل ڈیڈ لاک برقرار ہے حکومتی اتحاد کی جانب سے مذاکرات میں چوہدری شجاعت، مشاہد حسین، امین فہیم، قمر الزمان کائرہ ، خورشید شاہ، فاروق ستار، بابر غوری شریک ہوئے جبکہ مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا اسلام آباد ڈیکلریشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے انہوں نے کہا حکومتی وفد سے اتفاق پایا گیا ہے کہ 16مارچ سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی جبکہ آئندہ 7سے10دن میں اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخوں کا اعلان بھی کر دیا جائے گا آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے مطابق امیدواروں کی سکروٹنی کے لئے 30دن مقرر کر دئیے جائیں گے اور اس اعلامیہ کو قانونی حیثیت دی جائے گی تاکہ تشویش پیدا کرنیوالوں کی زبانوں کو بند کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا نگران وزیراعظم اور صوبوں کے وزراء اعلی کا انتحاب حکومتی وفد اور پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت سے کرنے پر مکمل اتفاق ہے۔ انہوں نے کہا الیکشن کمشن کی تحلیل کے موضوع پر ڈیڈ لاک برقرار ہے چیف الیکشن کمشنر کی ایمانداری پر کسی کو شک نہیں لیکن باقی 4ارکان کی تعیناتی آئین کے مطابق نہیں ہوئی اور وہ غیر آئینی ہیں آئین کے آرٹیکل 213کے مطابق ان ارکان کا انتحاب نہیں کیا گیا اور ان کی تعیناتی غیر قانونی ہے آئینی طور پر الیکشن کمشن تشکیل ہی نہیں پایا اس پر قائم ہیں اور کوئی بھی ایکشن لے سکتے ہیں انھوں نے کہا کہ حکومتی وفد کی جانب سے عوامی نمائندگی ایکٹ اور الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ 2012کے فیصلے پر عملدرآمد کا یقین دلایا گیا ہے اور اس نقطہ پر مکمل اتفاق ہو گیا ہے انہوں نے کہا حکومتی وفد سے مطالبہ کیا گیا الیکشن کو شفاف بنانے کےلئے وزیراعظم اور صوبوں کے وزراءاعلی کو دئیے جانیوالے صوابدیدی فنڈز کا استعمال فوری طور پر روکا جائے اور اس فنڈز کا 50فیصد استعمال بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر خرچ کیا جائے جبکہ باقی 50فیصد فنڈز آٹے ،چینی، دال،گھی، چاول پر سبسڈی دینے پر خرچ کئے جائیں تاکہ غریبوں کو جینے کا موقع مل سکے اور زندگی انھیں بوجھ نہ لگے اس پر حکومتی وفد اور پاکستان عوامی تحریک میں اختلافات ہیں جس پر کسی بھی ایکشن کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قمر الزمان کائرہ نے کہا تمام معاملات پر تفصیلی غور کیا گیا ہے اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کیا جائے گا اور7سے10دن کے اندر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ نگران حکومت کا قیام بھی پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت سے ہو گا الیکشن کمیشن کو فوری طور پر تحلیل کرنا غیر آئینی ہے اور ہم کوئی غیر آئینی اقدام کو نہیں مانتے۔ انہوں نے کہا اس چیز پر ڈیڈ لاک برقرار ہے اور پاکستان عوامی تحریک کسی بھی ایکشن کا حق رکھتی ہے لیکن امید ہے اب دھرنا نہیں دےنگے۔ انہوں نے کہا آرٹیکل 62اور 63پر عملدرآمد الیکشن کمشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری ہے جس پر امید ہے وہ مکمل عملدرآمد کرائےںگے عوامی نمائندگی ایکٹ کے نفاذ پر مکمل اتفاق پایا گیا ہے ا سکے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کے حوالے سے فیصلے پر عملدرآمد یقینی ہے انہوں نے کہا پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے اپنے لوگوں کے ساتھ اپوزیشن ارکان کو بھی فنڈز دئیے پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے فنڈز کا استعمال روکنے کے مطالبہ پر عمل ابھی ممکن نہیں بہت سے پروجیکٹ ابھی جاری ہیں انہیں نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا فیڈرل حکومت کے پاس 350ارب کے جبکہ صوبوں کے پاس 650ارب کے فنڈز استعمال ہو رہے ہیںاور صوبوں کے فنڈز پر ہمارا کنٹرول نہیں لیکن میں یقین دلاتا ہوں جب الیکشن کمشن کا کام شروع ہو جائے گا ہم ملکر ان فنڈز کا استعمال روکیں گے۔ انہوں نے کہا اس صورتحال میں کسی دوسری قوت نے جمہوریت کے خلاف کام کیا تو تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر مقابلہ کریں گے۔ این این آئی کے مطابق حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان 31 جنوری کو کیا جائیگا۔ حکومتی وفد اور طاہر القادری کے درمیان گزشتہ روز تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پانچ گھنٹے سے زائد تک اسلام آباد ڈیکلریشن پر مذاکرات ہوئے۔ اس موقع پر دونوں طرف سے آئینی و قانونی ماہرین نے شرکاءکو نکات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ ایک سوال کے جواب میں طاہر القادری نے کہا اسلام آباد ڈیکلریشن پر دستخطوں کے بعد اب عدلیہ یا فوج کی گارنٹی کی ضرورت نہیں صوابدیدی فنڈز کے حوالے سے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ وکلاء کی کمیٹی نے اپنی تحریری سفارشات وزیر قانون کو بھجوائی تھیں جس پر کوئی اختلافی نوٹ نہیں۔ ہم آئینی طور پر الیکشن کمشن کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کو منسوخ نہیں کرسکتے۔ حکومت آئین کی پابند ہے ہم پارلیمانی کمیٹی کے فیصلے کی توثیق تو کرسکتے ہیں لیکن ہم اسکے خلاف اور اس سے انحراف نہیں کرسکتے۔ ہمیں توقع ہے اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک اپنے نقطہ نظر کو ہر پلیٹ فارم پر لائے گی لیکن وہ فورم دھرنے والا نہیں ہوگا۔ صوابدیدی فنڈز کے حوالے سے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ انہوں نے بتایا پاکستان عوامی تحریک کو 31 جنوری کو آگاہ کرینگے کہ اس حوالے سے مذاکرات دوبارہ کب ہونگے۔ قمر زمان کائرہ نے کہا کہ الیکشن کمشن کی تشکیل کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے معاملات کو بہتر کرنے کے لئے جو ہم کرسکتے ہیں کریں گے اور جو پاکستان عوامی تحریک سمجھتی ہے کرے گی۔ انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ اسمبلیوں کو ایک ہی دن میں تحلیل کرنے میں ہمارا اتفاق رائے ہے اور اپوزیشن کو بھی اس پر متفق کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آئندہ سات سے دس روز میں اسمبلیاں تحلیل کرنے اور آئندہ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ دینے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا طے پانے والے نکات کو قانونی شکل دینے کے لئے قانون سازی کی جائے گی۔طاہرالقادری سے مذاکرات کرنیوالی ٹیم نے دوران مذاکرات وزیر قانون فاروق ایچ نائیک سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کرکے آئینی و قانونی نکات پر تبادلہ خیال کیا، فاروق ایچ نائیک نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے گفتگو کے دوران مذاکرات میں شامل نہ ہونے پر معذرت کرلی۔ حکومتی ٹیم اور طاہرالقادری کے درمیان باضابطہ مذاکرات سے قبل ق لیگ کے سربراہ شجاعت حسین اور سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید نے ماڈل ٹاﺅن میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے غیر رسمی ملاقات کرکے مشاورت کی جبکہ اتحادی رہنماﺅں کے درمیان گورنر ہاﺅس میں علیحدہ سے مشاورت ہوئی جس میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے ہونیوالے مذاکرات بارے تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شجاعت حسین نے کہا ان مذاکرات سے نیک توقعات رکھنی چاہئیں۔ فاروق ایچ نائیک کے مذاکرات میں شامل نہ ہونے کے سوال کے جواب میں مشاہد حسین نے کہا انکے باس مخدوم امین فہیم انکے ساتھ موجود ہیں۔ معاہدے کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہ ہونے کے سوال کے جواب میں دونوں رہنماﺅں نے کہا کہ اس پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہیں۔ آئی این پی کے مطابق حکومت نے طاہرالقادری کے الیکشن کمشنر اور صوبائی ممبران ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تبدیلی کے مطالبہ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جبکہ طاہرالقادری نے حکومتی ٹیم کے موقف کو مسترد کردیا، حکومتی مذاکراتی ٹیم میں وفاقی وزیر فاروق ایچ نائیک کی عدم شرکت پر طاہرالقادری نے شدید احتجاج کیا جبکہ وفاقی وزیر خورشید شاہ کا کہنا ہے مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے، انتخابی اصلاحات کے دیگر نکات پر آئین اور قانون کو مدنظر رکھ کر کام کیا جائیگا۔وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کمشن کی تحلیل اور ممبران کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ہٹانا ممکن نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت سے ترامیم کرنا ضروری ہے اور جہاں تک انتخابی اصلاحات کے دیگر معاملات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمشن خود ہی رولز میں ترامیم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا چودھری نثار کو چاہئے وہ دھرنوں کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر آ کر بات کریں ہم نے پہلے بیھ کبھی ان کو بولنے سے روکا ہے نہ ہی آئندہ روکیں گے۔ مسلم لیگ ن پہلے طاہر القادری کے الیکشن کمشن کے حوالے سے مطالبات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے اور اب خود غیر آئینی مطالبات کر رہی ہے۔