• news

اڈیالہ جیل قید ی کیس: اٹارنی جنرل آج متعلقہ حکام کا اجلاس بلا کر معاملہ کا دوبارہ جائزہ لیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + اے پی اے) سپریم کورٹ میں اڈےالہ جیل سے خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے غائب کئے جانے والے افراد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالت کو حراستی مرکز میں قید افراد کے بنیادی حقوق اور آزادی سے متعلق تشویش ہے، آنکھیں بند نہیں کر سکتے، اس معاملے میں اٹارنی جنرل کیا مدد کر سکتے ہیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں صرف قانونی مشورہ دے سکتا ہوں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ اڈیالہ جیل کے لاپتہ قیدیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی تو عدالت کے روبرو پیش ہوتے ہوئے اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ انہوں نے اڈیالہ جیل والے قیدیوں کے معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے، ان کی تحویل قانون کے مطابق ہے، زیر حراست افراد یا ان کے اہلخانہ رہائی کے لئے درخواست دے سکتے ہیں، اس کیس سے متعلق متنازعہ حقائق حل ہونے چاہئیں۔ درخواست گذار کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ اس مرحلے پر ان افرادکو رہا نہ کیا گیا تو عدالتوں سے اعتماد اٹھ جائے گا، تمام افراد غیر قانونی حراست میں ہیں، یہ حبس بے جا کا کیس ہے، پہلے چار افراد مارے گئے، ان کی نعشیں مل گئیں، آئندہ شاید نعشیں بھی نہ ملیں، حراستی مراکز سے رہائی کے لئے بھی دو بار درخواست دی گئی مگر تاحال معاملے کو زیر غور نہیں لایا گیا۔ عدالت نے قرار دےا کہ اٹارنی جنرل آپ متعلقہ اداروں اور حکومت سے ایڈوائس لے کر آگاہ کریں وگرنہ عدالت کوئی حکم جاری کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کیس قابل ٹرائل ہو تو تحویل قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو پراسیکیوشن کیلئے دی جاتی ہے۔ حراستی مرکز میں قید افراد درخواست دیں تو قانون کے مطابق زیرغور لایا جائیگا۔ طارق اسد وکیل درخواست گذار نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرنے کے بیانات دئیے۔ خود ٹرائل نہ کرنے کا بھی کہا۔ سیکرٹری فاٹا نے عدالت کو بتایا کہ 2 ماہ قبل ملنے والی درخواست ثبوت کی بنیاد پر مسترد کی جا چکی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے، تحویل قانون کے مطابق ہے۔ درخواست گذار کے وکیل نے مزید دستاویزات جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو نئے حقائق کی روشنی میں جوابی دلائل تیار کرنے کی ہدایت کی۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل منگل کو متعلقہ حکام کا اجلاس بلا کر معاملے کا دوبارہ جائزہ لیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان قیدیوں کو فاٹا ریگولیشن فار ایکشن ان سول ایڈ میں زیر حراست رکھنے کی گنجائش موجود ہے، قیدیوں کی رہائی سے متعلق فیصلہ حراستی اتھارٹی خود یا متعلقہ حکام کی جانب سے دی گئی درخواست پر کر سکتی ہے، قیدیوں کے رشتے دار بھی درخواست دے سکتے ہیں جس پر قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائےگا اور اگر فیصلہ خلاف ہوا تو اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اپیل کہاں کی جائے گی جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے قانون میں واضح بات نہیں کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے ان کو رہا نہیں کیا جا رہا، اٹارنی جنرل نے کہا میرا مطلب یہ نہیں، صرف متعلقہ قانون کا حوالہ دیا ہے، قیدیوں کے وکیل طارق اسد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اٹارنی جنرل کی بات سے اتفاق نہیں کرتا، عدالت کو ماضی میں دو مرتبہ بتایا جا چکا ہے کہ قیدیوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ قیدیوں کو ایک دن کےلئے بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ عدالت کے پوچھنے پر سیکرٹری فاٹا ناصر جمال نے بتایا کہ قیدیوں کے ورثاءکی جانب سے متعلقہ اتھارٹی کو دو ماہ قبل درخواست موصول ہوئی تھی تاہم حکام نے قیدیوں کےخلاف ثبوت ہونے کی وجہ سے اس درخواست کو مسترد کر دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، یہ ملکی اداروں کا معاملہ ہے۔ عدالت کی ہدایت پر قیدیوں کے وکیل نے کیس کا تمام ریکارڈ عدالت میں پڑھ کر سنایا جس کے مطابق گیارہ قیدیوں کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت پانچ مختلف مقدمات درج کئے گئے تھے تاہم یہ قیدی بعدازاں مختلف عدالتوں سے بری ہو گئے، وکیل طارق اسد کے دلائل جاری تھے کہ سماعت 4 فروری تک ملتوی کر دی گئی جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ اس دوران اٹارنی جنرل اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

ای پیپر-دی نیشن