• news

سندھ میں نگراں سیٹ اپ پر اختلافات

 شہزاد چغتائی
اپوزیشن وفاق کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کے نگراں سیٹ اپ میں حصہ چاہتی ہے لیکن پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کے نگراں سیٹ اپ میں اپوزیشن کو ایڈجسٹ کرنے کے بجائے منفی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ ان کی اہم اتحادی ہے اور وہ فنکشنل مسلم لیگ کو اس حق سے محروم کئے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ 18 ویں ترمیم کے تحت مرکز کے ساتھ صوبوں میں نگراں حکومتوں کا قیام اپوزیشن کی مشاورت سے ہونا ہے اور مسلم لیگ ن مرکز کے ساتھ چاروں صوبوں میں اتفاق رائے سے نگراں سیٹ اپ کا قیام چاہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مرکز میں نگراں حکومت کے قیام پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے لیکن صوبوں کا نگراں سیٹ اَپ کیلئے کشمکش موجود ہے۔ نوازشریف اور پیر پگارو یہ اعلان کر چکے ہیں کہ سندھ کے نگراں سیٹ اَپ پر دو جماعتوں کی سودے بازی قبول نہیں کی جائے گی۔ فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ میں نصرت سحر عباسی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی درخواست دے رکھی ہے۔سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثارکھوڑوکا موقف ہے فنکشنل مسلم لیگ نے اپوزیشن لیڈر کےلئے جو درخواست جمع کرائی ہے اس پر 11 ارکان کے دستخط ہیں جن میں نصرت سحر عباسی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جام مدد علی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کےلئے جو درخواست موصول ہوئی تھی اس پر 24ارکان کے دستخط تھے۔ پیپلز پارٹی کے حلقے کہتے ہیں فنکشنل مسلم لیگ کو چند ووٹوں کی بنیاد پر نگراں سیٹ اپ میں نصف حصہ کیسے دیا جاسکتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے حلقے اس سوال پر خاموش ہیں کہ وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کس کو تسلیم کریں گے۔ نصرت سحر عباسی کے ساتھ ارکان کی کم تعدادہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکتیں۔ جام مدد علی تنہا شخص ہونے کے باوجود کئی سال تک اپوزیشن لیڈر رہے ہیں۔ اب اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ڈیڑھ سال سے خالی پڑاہے۔ جام مدد علی کے بعد سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم نے بھی اپوزیشن لیڈر بننے کی ناکام کوشش کی تھی۔
پیپلز پارٹی کیا چاہتی ہے یہ بات اب تک واضح نہیں ہے سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ سندھ کا سیاسی منظر نامہ الجھا ہوا ہے اور اس کو واضح ہونے میں وقت لگے گا۔ پیپلز پارٹی اگر اس کوشش میں ہے کہ سندھ میں اپوزیشن لیڈر کا کوئی وجود نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے صدر سید غوث علی شاہ کہتے ہیں کہ مشاورت سے نگراں وزیراعلیٰ نہیں لایا گیا تو ہمارے پاس دوسرے آپشن موجودہیں۔ مسلم لیگ ن نے وفاق کے نگراں سیٹ اپ کےلئے 6نام تجویز کردیئے ہیں لیکن سندھ کے نگراں سیٹ اپ کےلئے اب تک ناموں پر غور نہیں ہوا۔ توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں نگراں وزیراعلیٰ کا انتخاب کرکے پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا جائے گا۔ اس وقت تک مسلم لیگ ن اور فنکشنل مسلم لیگ کا انتخابی اتحاد وجود میں آجائے گا جس میں جمعیت علماءاسلام‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علماء پاکستان‘ سندھ یونائیٹڈ پارٹی‘ این پی پی‘ سندھ ترقی پسند پارٹی‘ عوامی تحریک اور دوسری جماعتیں شامل ہوںگی۔ اس دوران صدر آصف علی زرداری کی جانب سے فنکشنل مسلم لیگ کے صدر پیر پگارا کو نگراں وزیراعظم بنانے کی پیشکش موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ اور صدر آصف علی زرداری کی جانب سے پیر پگارا کو نگراں وزیراعظم بنانے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ مسلم لیگ کا خیال ہے کہ پیر پگارا نگراں وزیراعظم بنے تو مسلم لیگ ن آئندہ الیکشن میں اہم اتحادی سے محروم ہو جائے گی۔بعض اطلاعات کے مطابق پیر پگارا کو نگراں وزیراعظم کے عہدے کی پیشکش لندن میں کی گئی تھی جس کا پیر پگارا نے مثبت جواب نہیں دیاتھاجبکہ فنکشنل مسلم لیگ کے حلقوں نے سادگی میں اس کا اعتراف کرلیا تھا لیکن خود پیر پگارا نے اس بات کی تصدیق نہیں کرتے ۔ صدر آصف علی زرداری پیرپگاراکو ساتھ ملانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں اور انہوں نے پیر پگارا کو منانے کےلئے حال ہی میں نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ بھی گزشتہ دنوں کہہ چکے ہیںکہ پیرپگارا کو حکمراں اتحاد میں واپس لانے کےلئے کوششیں جاری ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی گزشتہ دنوں پیر پگارا کو قائل کرنے کراچی آئے تھے اور صدر آصف علی زرداری نے پیرپگارا کو اپوزیشن کے حلقوں سے دور رکھنے کےلئے یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنائی تھی جس کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ پیر پگارا کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے سودے بازی کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور کسی دباﺅ میں آنے کےلئے تیارنہیں۔ پیر پگارا کے اس مثالی کردار کو مسلم لیگ ن کے سربراہ محمد نوازشریف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سندھ میں فنکشنل مسلم لیگ اپوزیشن کی اہم اتحادی جماعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرکز میں اتفاق رائے کے نگراں سیٹ اپ کے قیام پر مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی بتدریج آگے بڑھ رہے تھے کہ تحریک منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری اچانک میدان میں کود پڑے اور انہوں نے مذاکرات اور افہام تفہیم کی فضا کو سبوتاژ کرکے نئی صورتحال پیداکردی۔ وقت کے ساتھ نگراں سیٹ اپ کا معاملہ الجھ رہا ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوا تو سیاسی بحران بڑھ سکتا ہے۔کراچی میں دھرنوں‘ احتجاج اور مظاہروںکی لہر آگئی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں کئی روز سے الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیئے رہیں اور مستقل بنیادوں پر احتجاجی کیمپ قائم کردیا گیاہے۔مسلم لیگ ن سمیت سیاسی جماعتیں کراچی میں حلقہ بندیاں کرنے اور فوج کی نگرانی میں گھر گھر ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کررہی ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ فوج محض انتخابی عملہ کو سیکورٹی فراہم کررہی ہے اور ووٹوں کی گھر گھر تصدیق میں شامل نہیں ہے۔ اپوزیشن نے بعض یقین دہانیوں پر کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفاتر پر دھرنا ختم کردیا لیکن آج پارلیمنٹ ہاﺅس پر ان مطالبات کی منظوری کےلئے سیاستداں اکٹھا ہورہے ہیں جن کی منظوری کےلئے 20 سے زائد مذہبی اور سیاسی جماعتیں کئی روز تک کیمپ لگائے بیٹھی رہیں۔ دھرنے کے خاتمہ کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے اعلان کیا کہ مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں وہ دوبارہ احتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپوزیشن کے مطالبات ماننے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب کراچی میں فوج کی نگرانی میں گھر گھر ووٹوں کی تصدیق کا 70 فیصد عمل مکمل ہو چکا ہے۔ کراچی میںسیاسی جماعتوں کے احتجاج کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مقررین نے جوش خطابت میں چیف الیکشن کمشنرکو بھی بے بھاﺅ کی سنائی ہیں، اور ان کے اقدامات کو سپریم کورٹ کے احکامات کی توہین قرار دیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن