حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری میں اسمبلیاں تحلیل کرنے پر اتفاق؟
احمد کمال نظامی
سٹاک ایکسچینج کا براہ راست حکومتی کارکردگی اور امن و امان کی صورتحال سے تعلق ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں حالات کے اتار چڑھا¶ سے سٹاک ایکسچینج پر اثر ضرور پڑتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کے حالات میں سٹاک ایکسچینج کے ساتھ ساتھ سیاست کے لین دین کا بھی گہرا دخل ہے۔ جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی مسئلہ پر تنا¶ پیدا ہو یا پھر انتخابی موسم کی مون سون چل پڑے تو اس سے سیاسی ایکسچینج میں اس قدر تیزی آجاتی ہے کہ صبح و شام بھا¶ چڑھتے اترتے ہیں۔ خاص طور پر ان دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ نے تو سیاسی دنیا میں ایک نئی کروٹ لے لی ہے۔ نہیں معلوم کہ زرداری سب پر بھاری کا نعرہ پیپلزپارٹی کا ہے یا واقعی وہ اٹھارہ کروڑ عوام پر بھاری ہیں ۔ سیاسی روایات تو یہی ہیں کہ کسی بھی مسئلہ پر ہمیشہ مذاکرات حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہوتے ہیں مگر اپوزیشن کا دعویٰ کرنے والے بھی اس شخص کے جادو سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ بالفاظ دیگر حکومتی زبان بولتے سنائی دیتے ہیں اور اپنے وجود کو اپنے ہاتھوں تلف کر رہے ہیں۔ جو بانسری ان دنوں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بجائی جا رہی ہے پوری دنیا کے جمہوری ممالک میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں خصوصی طور پر آمریت کے خاتمہ اور جمہوریت کے سورج کے طلوع ہونے کے بعد سیاست کا نام محض لوٹ مار، کرپشن، دھوکہ دہی، زرپرستی، زرداری اور ہٹ دھرمی ہے۔جو بھی آتا ہے اپنی مرضی کے فیصلے کرنا شروع کر دیتا ہے اور سیاسی شعبدہ باز ایسے ایسے کرتب دکھاتے ہیں کہ عوام اس کو حقیقت جان لیتے ہیں۔ حکومت اور طاہرالقادری کے درمیان جو مذاکرات ہوئے بظاہر آئندہ دس روز میںاسمبلیاں توڑنے اور انتخابات کے انعقاد پر اتفاق رائے ہو گیاہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی عوامی تحریک کی مشاورت سے وجود میں آئیں گی تاہم الیکشن کمیشن کی تحلیل کو حکومت نے آئینی طور پر ناممکن قرار دیا ہے۔ اس مشترکہ اعلامیہ کے بارے میں یارلوگ بڑی عجیب منطق پیش کرتے ہیں کہ طاہرالقادری پر جو جن سوار ہوا تھا وہ مذاکرات کے جنتر منتر سے بول پڑا ہے اور اس سمندری جن کی شناخت بھی ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری فروری میں اسمبلیاں تحلیل کرتے ہیں یا حکومت کی مدت پوری ہونے کا انتظارکر تے ہیں ۔ نگران سیٹ اپ کیلئے آئینی طور پر قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کے درمیان مشاورت کے بعد فیصلہ ہونا باقی ہے۔ فروری کا آخری عشرہ شروع ہونے سے قبل ہی نگران سیٹ اپ کے خدوخال سامنے آ جائیں گے۔ ایک بات تو حتمی ہے کہ وہی شخص نگران وزیراعظم ہو گا جسے قومی سطح پر سیاسی و ریاستی تمام فریقین کی تائید حاصل ہو گی ۔ درحقیقت طاہرالقادری سے تحریک منہاج القرآن کی مقبولیت اور اس کے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک سے جو کام لینا تھا وہ لانگ مارچ کی شکل میں لیا جا چکا ہے اور حکمران پارٹی سے انتخابات سے قبل اور لانگ مارچ کے بعد بہاولپور جنوبی پنجاب کے صوبہ کے قیام کے لئے جو شطرنج کی چال چلی ہے اسے اس میں شہ مات ہونے والی ہے۔ اس چال کے ذریعے جنوبی پنجاب کے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے مسلم لیگ(ن) پر جو دبا¶ ڈالا گیا ہے اس کا فوری ردعمل سامنے آیا ہے۔ جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمران پیپلزپارٹی اپنا ہی وزن اٹھا لے تو یہ بہت ہے کیونکہ حالیہ انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹی ٹیوٹ کے سروے رپورٹ نے اس کی تائید کر دی ہے اور سروے کے مطابق 32فیصد عوام نے مسلم لیگ(ن) کے حق میں اپنی رائے دی ہے اور عمران خان کی تحریک انصاف دوسرے نمبر پر اور پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے۔ گویا تاحال پیپلزپارٹی کے بہت سے بانی ارکان کا تبصرہ یوں ہے کہ صدر آصف علی زرداری جن لائنوں پر پیپلزپارٹی کو چلا رہے ہیں اور سندھ کارڈ کو استعمال کرنا چاہتے ہیں انتخابات کی صورت میں پیپلزپارٹی قومی پارٹی کی بجائے علاقائی پارٹی بن کر رہ جائے گی۔ آئی آر آئی کی سروے رپورٹ بھی اس کی تائید کرتی ہے جبکہ رکن قومی اسمبلی عابد شیرعلی کے مطابق عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) پیپلزپارٹی کے تمام کس بل نکال دے گی۔ فیصل آباد جس کی قومی اسمبلی میں تو نشست ہے (ن) لیگ اپنی روایت برقرار رکھتی ہے البتہ پیپلزپارٹی خسارہ میں رہے گی اور عمران خان کی پارٹی نے اگر اپنے امیدواروں کا درست انتخاب کر لیا تو آئندہ قومی اسمبلی میں فیصل آباد کے حوالہ سے تحریک انصاف نمائندگی کرتی نظر آئے گی کیونکہ پاکستان کی یوتھ جو تبدیلی کی آگ میں جل رہی ہے اس نے اپنا کردار انتخابات میں ضرور ادا کرنا ہے اور اس جنون کی زد میں پیپلزپارٹی کا آنا اس کا مقدر قرار پا چکا ہے اور انتخابی سیاست دانوں نے اپنی مفادپرستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام پر جو دروازے بند کئے ہوئے ہیں وہ انتخابات کی کنجی سے کھل جائیں گے اور صفائی ضرور ہو گی۔