پاکستان کے سارے شہرو زندہ رہو اور میانوالی
خدا کے لئے وارث شاہ کے پنجاب کو لاوارث نہ کرو۔ آج پھر میں وہی کالم لکھ رہا ہوں۔ میانوالی مجھے لاہور کی طرح اچھا لگتا ہے۔ میانوالی کے کئی دوست لاہور آتے ہیں تو داتا صاحب کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کا قیام و طعام داتا دربار ہوتا ہے۔ میانوالی کے لئے میرے کالم پر میرے ساتھ رابطوں کا تانتا بندھ گیا۔ پنجاب کے پوٹھوہاری علاقے کے دانشور اور دلیر لیڈر ڈاکٹر بابر اعوان نے رابطہ کیا۔ یہ کالم انہی کی محبت کا ثمر ہے۔ 100 برس سے زیادہ ہو گئے میانوالی کو لاہور سے جڑے ہوئے۔ ایک تو یہ کہ بہاولپور جنوبی پنجاب غلط ہے اور میانوالی کو اس میں شامل کرنا بہت غلط ہے۔ میں میانوالی کے لئے لاہور میں احتجاج شروع کر رہا ہوں۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ میانوالی کو بہاولپور جنوبی پنجاب میں شامل کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ صوبہ ہی نہیں بن سکتا۔ بہاولپور صوبہ کے حق میں ہوں۔ بہاولپور جنوبی پنجاب کو سرراہے میں پہلی بار بی جے پی لکھا گیا۔
جس صوبے کی جغرافیائی حدود تبدیل کرنا ہوں تو آئینی تقاضے کے مطابق اس کے عوام اور منتخب لوگوں کو کسی فیصلے کا اختیار ہے۔ اس میں بہاولپور کے لئے الگ صوبے کی تجویز تھی۔ پھر سرائیکی صوبہ اور پوٹھوہار الگ الگ یونٹ ہوں گے۔ جہاں تک میانوالی کا تعلق ہے اسے لاہور سے الگ کرنا کسی طور مناسب نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں۔ سرائیکی صوبے میں دیہی سندھ کے 80 فیصد علاقے کا حق ہے۔ اس کی طرف میں نے کل کے کالم میں بھی اشارہ کیا ہے۔ زبانوں کے معاملے میں متنازعہ اور سیاسی نہ بنایا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ باچا خان کی اولاد نے صوبہ سرحد کا نام لسانی اور سیاسی طور پر منفی انداز میں پختون خوا رکھا جبکہ یہ نام قابل قبول حیثیت نہیں رکھتا۔ پختونستان اس سے بہتر ہے تو پھر ہزارہ صوبہ کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت بھی اسی طرح کی ضد منفیت اور مفاد پرستی ہے۔ ہزارہ ہندکو صوبہ ہے اور پختونخوا سے مختلف ہے جبکہ ہندکو زبان سرحد کی سب سے بڑی زبان ہے۔ سرائیکی صوبے کا نعرہ لگانے والے بھی حاجی عدیل ہزارہ صوبے کے لئے دھمکیاں لگانے لگتے ہیں۔ خوشی ہے کہ سارے صوبوں میں پورے پاکستان میں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
پنجاب کی ایک تقسیم دو قومی نظرئیے کے تحت نظریاتی بنیادوں پر ہوئی تھی۔ اب پیپلز پارٹی نظریہ ضرورت کے تحت ووٹ لینے کے لئے بے بنیاد تقسیم کی سیاست چمکا رہی ہے۔ صوبوں کی تقسیم انتظامی بنیادوں پر ہو انتقامی بنیادوں پر نہ ہو۔ بہاولپور کے لئے برادرم محمد علی درانی کا موقف بالکل درست ہے۔ نئے گورنر پنجاب مخدوم صاحب کو سازش کا شکار کیا جا رہا ہے۔ میرے دوست عبدالقادر شاہین اسے بچائیں۔ پیپلز پارٹی کے مخلص کارکن ارشاد بھٹی بھی مخدوم گورنر کے مداح ہیں۔ سنا ہے وہ بھی خادم ہونا پسند کرتے ہیں۔ اب پنجاب کو دو خادم مل گئے ہیں۔
صوبہ پنجاب کے لئے جو کمشن بنایا گیا ہے۔ ایسا آدمی کمشن کا سربراہ بنایا گیا ہے جس کا تعلق ہی پنجاب سے نہیں۔ سنیٹر فرحت اللہ بابر نوشہرہ کے گاﺅں پیر پیائی کے رہنے والے ہیں۔ سینٹ کے چیئرمین نیر بخاری کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ان کے کمشن میں نہ ہونے سے معاملہ بے توقیر ہو گیا ہے۔ وہ اچھے دل و دماغ کے آدمی ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے اہم لیڈر سنیٹر ڈاکٹر بابر اعوان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ مسلم لیگ کے سنیٹر ظفر علی شاہ، راجہ ظفرالحق اور اسحاق ڈار کا تعلق پنجاب سے ہے۔ کوئی متعلقہ آدمی کمشن میں نہیں ہے۔ یہ ایک گھوسٹ کمشن ہے۔ نہ سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال نہ قائد ایوان نہ قائد حزب اختلاف۔ فرحت اللہ بابر کے علاوہ جمشید دستی اور وہ لوگ جنہیں پنجاب کا کچھ بھی پتہ نہیں۔
نہ کلچر کا پتہ ہے نہ رہتل کا۔ پنجاب کے صوفی ازم سے غافل کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ کسی حساس معاملے میں شریک ہو۔ ایسے لوگوں کو کسی کی تقدیر کے فیصلے کا اختیار کیوں ہو جو نہ ان کے خوابوں سے واقف ہوں نہ خوابوں کی تعبیروں سے۔
پنجاب کے لئے جو کمشن بنایا گیا ہے اس میں ایم کیو ایم کراچی کے لوگ بھی ہیں۔ وہ سندھ کی تقسیم کے حق میں نہیں۔ مگر کراچی کی تقسیم تو اب ان کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ کراچی صوبہ کے لئے کراچی کی دیواروں پر نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ اس کا نام میں نے کل کے کالم میں تجویز کیا تھا۔ کراچی مہاجر پٹھان صوبہ، بہاولپور جنوبی پنجاب کے بعد نئے صوبوں کے نام ایسے ہی ہوں گے۔ خیبر پختون خوا سب سے پہلے کی اختراع ہے۔ جمشید دستی بہاولپور جنوبی پنجاب کے بہت حامی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ مخدوم یوسف رضا گیلانی نے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب بنوانے کے لئے صدر زرداری سے کمپرومائز ہی اسی لئے کیا ہے کہ عبدالقادر گیلانی نئے صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ عبدالقادر گیلانی کمشن میں ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ ”ہم نے اپنا کام پورا کر دیا ہے“ بیان کا دوسرا حصہ میری طرف سے یہ ہے کہ ”زرداری صاحب! اب آپ اپنا وعدہ پورا کرو“؟
انہی دنوں میں جمشید دستی کا یہ کارنامہ سامنے آیا ہے کہ اس نے ایس ڈی او واپڈا کو سڑک پر لٹا لٹا کر مارا پیٹا ہے جو چارج لینے اس کے علاقے میں گیا تھا۔ یقیناً ان کے پسندیدہ آدمی کو تبدیل کر دیا ہو گا۔ اس واقعے کی تھانے میں رپورٹ تک درج نہیں کی گئی۔ سرائیکی صوبہ کے لئے کمشن کی سربراہی تاج محمد لنگاہ کو دینی چاہئے تھی۔ پوٹھوہار کی نمائندگی کے لئے ڈاکٹر بابر اعوان کو نامزد کرنا چاہئے۔ بابر اعوان نے بتایا کہ میرے ساتھ کام کرنے والے عملے کا تعلق میانوالی سے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا ایک گھر میانوالی ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو کیا بتاﺅں کہ جس نے اپنے گھر سے وفا نہیں کی وہ اپنے وطن سے کیا وفا کرے گا۔ فلسطینی شاعر محمود درویش نے کہا کہ ”وطن اپنی ماں کے ہاتھوں کی پکی ہوئی روٹی کھانے کا نام ہے“ محترم عبدالقادر حسن قومی سطح کے ممتاز کالم نگار ہیں۔ وہ اپنے سون سکیسر کو کبھی نہیں بھولے۔ برادر کالم نگار فاروق عالم انصاری گوجرانوالہ کو اپنے دل سے نہیں نکال سکتے۔
میانوالی کے لئے ملک منصف اعوان نے ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ میانوالی کے ایم این اے حمیر حیات روکھڑی نے قومی اسمبلی میں سیاہ پٹیاں باندھ کے شرکت کی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ میں نے لاہور میں میانوالی کے لئے مظاہرے کا اعلان کیا ہے تو برادرم آصف چیمہ نے پوری طرح ساتھ دینے کی حامی بھری ہے۔ چیمے بھی نیازیوں کے ساتھ ہیں۔ جاٹ اور پٹھان شانہ بشانہ۔ محترم شہزاد اکبر چیمہ نے کہا ہے کہ آپ جس محبوب شہر لاہور کی بات کر رہے ہو وہ کہاں ہے؟ اب اس عظیم زندہ شہر پر سیاسی تاجروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ کھوکھلی ترقی اور ماڈرن ازم کے شکار حکمرانوں نے ہمارے لاہور کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ ہمارا تعلق قدیم لاہور سے ہے۔ قدیم و جدید کے امتزاج سے قوموں کا مزاج بنتا ہے۔ پاکستان ایسا ہو جائے کہ ہم جس بھی شہر میں جائیں اجنبی نہ ہوں۔