ریاست کی زمین کاروباری مقاصد کیلئے استعمال نہیں کی جا سکتی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں گن اینڈ کنٹری کلب اراضی کیس کی سماعت کرتے ہوئے فاضل عدالت نے سی ڈی اے سے کلب میں ہونے والی غیرقانونی تعمیرات اور نقشہ سمیت اس کی لیز سے متعلق دیگر ریکارڈ طلب کر لیا ہے، مقدمہ کی سماعت 12فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا ہے کہ ریاست کی زمین کاروباری مقاصد کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی یہاں پر کنٹری کلب کس کھاتے میں بنایا گیا ہے؟۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل خصوصی بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی تو سی ڈی اے کی وکیل مصباح شریف نے بتایا کہ گن کلب کو 145ایکڑ کا رقبہ فی ایکڑ 5ہزار 60روپے سالانہ پر 33سال کی لیز پر دیا گیا ہے، جس میں سے 144ایکڑ پر شوٹنگ رینج قائم کیا گیا ہے اور صرف شوٹنگ رینج کا ہی نقشہ منظور کیا گیا ہے جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ اتنی شوٹنگ رینج میں کیا ٹینک چلانے ہیں؟۔ سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ خلیق الزمان نے بتایا کہ ان کے پاس ماسوائے شوٹنگ رینج کے کوئی نقشہ منظوری کے لئے آیا ہی نہیں ہے۔ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ وہاں پر شوٹنگ کے علاوہ بھی کئی سرگرمیاں ہو رہی ہونگی، یہ گن کلب ہے یا سپورٹس کملپکس اسے عوام کے لئے اوپن کیوں نہیں کیا گیا؟ شوٹنگ رینج کے سوا تمام تعمیرات غیرقانونی اور سی ڈی اے کے بائی لاز کے خلاف ہے۔ تعمیرات کا نقشہ کیوں پاس نہیں کیا گیا یہ امرتسر سے آکر کسی نے نہیں بلکہ سی ڈی اے نے بتانا ہے یہ کوئی راکٹ سائنس کا سوال نہیں، کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی نہیں چلی جاتی، ہم نے معاملے کو قانون کے مطابق دیکھنا ہے۔ کنٹری کلب کس کھاتے میں بنایا گیا ہے؟ انہوں نے استفسار کیا کہ سپورٹس زون کا ایریا کب مختص کیا گیا، جس پر سی ڈی اے کی وکیل نے بتایا کہ 1977ءمیں سپورٹس اور تفریح کے لئے مختص کیا گیا تھا، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اب تک تو لیز ایگریمنٹ ختم ہو چکا ہو گا کیا نیا ایگریمنٹ کیا گیا ہے؟ تو مصباح نے کہاکہ تاحال نہیں کیا گیا، جسٹس عظمت نے کہاکہ ہمارے سپورٹس بورڈ اور اولمپک ایسوسی ایشن کا جو حال ہے سب کو پتہ ہے۔