ججز تقرری : صدر جوڈیشل کمشن کی سفارشات منظور کرنے کے پابند ہیں : عدالت عظمی
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت +ثناءنیوز+ اے پی اے) سپرےم کورٹ آف پاکستان نے ججز تقرری کے حوالہ سے صدارتی رےفرنس پر اپنی رائے دےتے ہوئے قرار دےا ہے کہ ججز تقرری مےں صدر ےا وزےر اعظم کا کوئی کردار نہےں آئینی ترامیم کے بعد صدر اب صرف علامتی اتھارٹی ہے، چیف الیکشن کمشنر اور نگران وزیراعظم کی تقرری میں بھی صدرکا صوابدیدی اختیار نہیں رہا۔ جوڈےشل کمشن اور پارلےمانی کمےٹی کا فےصلہ حتمی ہو گا، صدر اور وزےر اعظم کا کردار برائے نام ہے۔ عدالت نے اپنی رائے مےں قرار دےا ہے کہ کسی بھی ہائی کورٹ کے چےف جسٹس کی تقرری کیلئے سنےارٹی کے اصول کا اطلاق نہےں ہو گا جوڈےشل کمشن چاہے تو کسی بھی جونےئر جج کی نامزدگی کر سکتا ہے۔ صدر جوڈیشل کمشن کی سفارشات منظور کرنے کے پابند ہیں۔ صدارتی رےفرنس پر عدالتی رائے 102 صفحات پر مشتمل ہے جسٹس خلجی عارف حسےن کی سربراہی مےں پانچ رکنی لارجر بےنچ نے صدارتی رےفرنس کی سماعت کی تھی۔ صدر نے ججز تقرری کے حوالہ سے 13 سوالات کے جواب مانگے تھے، عدالت نے قرار دےا کہ آئےن مےں 18 وےں اور 19 وےں ترمےم کے بعد جو صورتحال سامنے آ گئی ہے اس مےں چےف الےکشن کمشنر کی تقرری کیلئے الگ کمےٹی کام کرتی ہے اس طرح نگران وزےر اعظم کی تقرری کا کام وزےر اعظم اور قائد حزب اختلاف کرتے ہےں اگر وہ طے نہ کر سکےں تو اس کیلئے اےک الگ کمےٹی ہے ان کمےٹےوں کے فےصلہ کے بعد صدر کا کوئی کردار باقی نہےں رہتا۔ صدر ان کمےٹےوں کی سفارشات کو ماننے اور عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے اس طرح ججز تقرری پر جوڈےشل کمشن اور پارلےمانی کمےٹی کی سفارشات آ جاتی ہےں تو اس پر صدر اور وزےر اعظم ان پر من و عن عمل کرنے کے پابند ہوتے ہےں۔ عدالت نے قرار دےا کہ مختلف تقررےوں مےں صدر وزےر اعظم کی بھیجی گئی سمری کو واپس بھیج سکتا ہے جس مےں مسلح افواج کی تقرری بھی شامل ہے لےکن ججز کے حوالے سے چےف الےکشن کمشنر کے حوالے سے ےا نگران وزےر اعظم کے حوالے سے آئےن مےں صدر کیلئے اس چےز کی کوئی گنجائش باقی نہےں رکھی اس طرح ےہ طے کر دےا گےا ہے کہ صدر کو ججز کی تقرری سے متعلق جو بھی سمری ملے گی وہ اس پر من و عن عمل کرنے کے پابند ہےں وزےراعظم بھی اس مےں کوئی ردوبدل نہےں کر سکتے۔ ججز سنےارٹی کے معاملہ پر چار ججز نے کہا ہے کہ سنےارٹی کے حوالے سے ہم کوئی رائے نہےں دےں گے کےونکہ ےہ معاملہ صدارتی رےفرنس کے ذرےعہ نہےں نمٹاےا جا سکتا آئےن کے آرٹےکل 186 مےں سپرےم کورٹ کا دائرہ سماعت ہے اس مےں ےہ بات نہےں آتی اس پر کوئی الگ درخواست آئے گی تو اس پر کوئی فےصلہ کےا جائےگا جسٹس اعجاز افضل خان نے اس حوالہ سے اختلافی نوٹ تحرےر کےا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس رےاض احمد خان اسلام آباد ہائی کورٹ کے سےنئر جج ہےں اس لحاظ سے انہےں جو اسلام آباد ہائیکورٹ کا چےف جسٹس بنانے کی توقع تھی، انکی توقع جائز ہے۔ الجہاد ٹرسٹ فےصلہ کی روشنی مےں بھی ےہ توقع جائز ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے لکھا ہے کہ جوڈےشل کمشن نے جسٹس رےاض کو نظر انداز کرنے کی وجوہات نہےں لکھےں البتہ جسٹس اعجاز افضل نے جوڈےشل کمشن کی اکثرےتی رائے سے اتفاق کےا ہے کہ اگر جوڈےشل کمشن چاہے تو سےنئر جج کو چےف جسٹس بنا سکتا ہے اگر چاہے تو نظر انداز کر سکتا ہے لےکن اسے نظر انداز کرنے کی وجوہات تحرےر کی جانی چاہئیں۔ اعجاز افضل خان نے اپنی رائے مےں لکھا ہے جسٹس رےاض احمد خان کو نظر انداز کرنے اور چےف جسٹس نہ بنانے کی وجوہات درج نہےں کی گئےں جبکہ اس سوال پر کہ جوڈےشل کمشن کے دوسرے ارکان کسی شخص کو جج کی تقرری کیلئے نامزد کر سکتے ہےں، اس پر بنچ نے اپنی رائے دے دی ہے اور بنچ نے قرار دےا کہ ےہ صرف اور صرف متعلقہ چےف جسٹس کا اختےار ہے اور وہ سےنئر ججز کی مشاورت سے ہی کوئی نام تجوےز کر سکتا ہے۔ بنچ نے قرار دےا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چےف جسٹس کے لےے جسٹس انور خان کاسی کی تقرری کی جائے کےونکہ جوڈےشل کمشن اور پارلےمانی کمےٹی ان کے نام کی منظوری دے چکی ہے۔ عدالت نے اپنی رائے مےں قرار دےا کہ صدر کے پاس ججز کی سنےارٹی کے حوالہ سے کوئی اختےار نہےں۔ واضح رہے کہ عدالت نے 14 دسمبر کو صدارتی رےفرنس پر فےصلہ محفوظ کرلےا تھا جبکہ عدالت کے اس بنچ نے21 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو ججوں جسٹس شوکت عزےز صدےقی اور جسٹس نور الحق قرےشی کی تقرری سے متعلق فےصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ جوڈےشل کمشن اور پارلےمانی کمےٹی کی سفارشات پر فوری طور پر عمل کےا جائے ۔ےاد رہے جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں جسٹس طارق پرویز، جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل عدالت عظمی کے پانچ رکنی خصوصی بنچ نے آئین کے آرٹیکل186کے تحت صدرِ پاکستان کی طرف سے ریفرنس کی سماعت کی تھی۔