• news

اوگرا کرپشن عملدرآمد کیس : کاغذات بنیں گے نہ توقیر صادق واپس آئے گا : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) اوگراکرپشن عمل درآمد کیس میں سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق کی گرفتاری سے متعلق نیب نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم پرویز اشرف، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت 12افراد کیخلاف توقیر صادق کی غیر قانونی تقرری کرنے کے الزام میں ریفرنس تیار کر لیا گیا ہے جس کی ریجنل ڈی جی کی منظوری کے بعد اب ریفرنس دستخط کے لیے چیئرمین نیب کو بھجوا دیا گیا ہے۔ نیب کے تفتیشی افسر ڈپٹی ڈائریکٹر وقاص نے بتایا توقیر صادق کے پاکستانی 44 بنک اکاﺅنٹس سے 3 ارب ریکور ہوئے ہیں۔ ڈی جی (ایچ آر)کوثر اقبال ملک نے اسے تفتیش سے الگ ہونے کا کہا مگر انہوں نے انکارکر دیا۔ توقیر صادق دوبئی میں گرفتار ہے اور اس وقت انٹرپول کی تحویل میں ہے اسے واپس لانے کیلئے مزید کاروائی کرنا ہوگی تاہم اگر پاکستانی سفارتخانہ چاہے تو تین روز میں واپس آسکتا ہے نیب کی جانب سے دبئی انٹرپول کے لےے دستاویزات کی تےاری کے لئے مہلت کی استدعا پر عدالت نے نیب، ایف آئی اے اور پولیس و سی آئی ڈی سے تفصلی رپورٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 7فروری تک ملتوی کردی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ تیرہ جنوری کو توقیرصادق کو گرفتار لیا گیا تھا اور انٹرپول ابوظبی نے نیب ہیڈ کوارٹرز کو رپورٹ بھی دی ہے اب توقیرصادق کی پاکستانی حکام کو حوالگی کے لیے دستاویزات تیارکی جا رہی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ 25-11-2011 کو عدالتی فیصلے میں ہر 45 دن کے بعد رپورٹ مانگی گئی جو نہیں دی گئی۔ آٹھ ماہ سے زےادہ ہوگئے جب توقیر صادق اور منصور مظفر نیب ہیڈ کواٹر آکے بیٹھتے رہے۔ اس وقت ان کو کیوں گرفتار نہیں کےا۔ پاکستان سے پاسپورٹ دیا ورنہ توقیرصادق دبئی فرار ہی نہ ہوسکتا۔ حوالگی کے کاغذات نہیں بنیں گے۔ شواہد سے لگتا ہے کہ توقیرصادق نہیں آئے گا۔ سولہ دن ہو گئے اور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اعظم خان نے بتایاکہ اٹارنی جنرل دبئی نے بتایا ہے کہ ایک بار رہائشی ویزہ دے دیا جائے تو پاسپورٹ منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اگر توقیر صادق کی گرفتاری چاہتا ہے تو موثر دستاویزات فراہم کرے۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے توقیر صادق کا اقامہ منسوخ کرادیا ہے۔ توقیرصادق کی حوالگی کے پیچیدہ مسئلے پر انٹرپول کے افسر جاوید سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے معاونت سے انکار کر دیا تاہم انہیں سفارتخانے کے اہلکارنے بتایا کہ انٹرپول توقیرصادق کی حوالگی کے کاغذات تیارکرانا چاہتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پاکستان اور یو اے ای کے درمیان ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ ہی نہیں ہے۔جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ حوالگی کا معاملہ ہے ہی نہیں ڈیپوٹیشن کا ہے۔ توقیر صادق کا پاسپورٹ پاکستانی ہے اور منسوخ ہو چکا ہے۔ انٹرپول سے اس معاملہ پر درست انداز میں رابطہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسے ڈی پورٹ کرایا جا سکتا تھا۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ توقیر صادق پاکستان میں رقوم بھیجتا تھا جبکہ یہاں سے پیسے منگواتا بھی تھا۔ یہاں سے اسے رقم عمران نامی شخص بھیجتا تھا جسے گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آخری رقم جو اس نے منگوائی وہ 63 ہزار درہم تھی۔ یہ رقم دبئی میں سجاد نامی شخص نے وصول کی۔ ہم نے سجاد کا بھی بیان لیا جبکہ ایک عورت تک بھی پہنچے تو توقیر صادق سے رابطے میں تھی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم نے آئین و قانون کے مطابق چلنا ہے۔ ہماری کسی سے ذاتی عداوت نہیں اگر چیئرمین نیب نے عمل درآمد نہیں کرنا تو ہمیں وجوہات بتائیں۔ حکومتی افسران عوام کے ٹیکس کے پیسے سے تنخواہیں وصول کرتے ہیں ہم نے قوم کے 82ارب ریکور کرنے اور ملزم کو قانون کے مطابق سزا دینی ہے۔ اس میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ عدالت نے نیب تفتیشی ریکارڈ میں مداخلت کرنے والے احمد حیات لک اور لیگل کنسلٹنٹ شعیب خان کے بارے میں بھی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیب میں قانونی ماہرین کی کمی ہے یا مذکورہ لوگ ایکسٹرا ایکسپرٹ ہیں۔ 

ای پیپر-دی نیشن