کامران کیس‘ چیئرمین نیب کو حاضری سے مشروط استثنیٰ ‘ انصاف ہوتا نظر آنا چاہئے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے کامران قتل کیس کی سماعت کے دوران چیئرمین نیب کو حاضری سے مشروط مستثنیٰ دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ عدالت جب ضروری سمجھے گی انہیں عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمشن کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے کامران فیصل کے تایا ڈاکٹر انور سعید چودھری کی مقدمہ میں فریق بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ اپنا م¶قف تحریری طور پر عدالت میں پیش کریں۔ مقدمہ کی مزید سماعت 11 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔ دوران سماعت جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس مقدمے کے اثرات دور تک جائیں گے، ہم چاہتے ہیں کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت شروع کی تو نیب کے چیئرمین وہاں موجود تھے۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے کہا کہ انہوں نے بنچ پر اعتراضات سے متعلق درخواست رجسٹرار آفس میں جمع کرائی تھی جسے اعتراض لگاتے ہوئے واپس کر دیا اب انہیں دور کر کے دوبارہ جمع کرانے کے لئے 10 روز کی مہلت دے۔ انہوں نے چیئرمین نیب کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ بنچ پر نیب اعتراضات کی درخواست کے بارے میں 10 دن کی مہلت دی گئی۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمشن کے بارے میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ جوڈیشل کمشن نہیں بلکہ تحقیقاتی کمشن ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہئے جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عدالت کیس میں حقائق تک پہنچنا چاہتی ہے۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے گذشتہ روز بنچ پر نیب کے تحریری اعتراضات رجسٹرار آفس میں جمع کرائے تھے لیکن رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس کر دئیے جس پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ دوبارہ تحریری اعتراضات داخل کریں۔ نیب نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرنے کےلئے 10 روز کی مہلت طلب کی جو عدالت نے دی۔ کامران فیصل مرحوم کے تایا ڈاکٹر انور سعید چودھری کو مقدمہ میں فریق بنانے کی درخواست قبول کر لی گئی۔ انور سعید چودھری نے عدالت میں بات کرنا چاہی جس کی عدالت نے اجازت نہیں دی اور انہیں ہدایت کی کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں وہ تحریری طور پر عدالت کو بتائیں، اٹارنی جنرل عرفان قادر نے حکومت کی جانب سے بنائے جانے والے کمشن کے نوٹیفکیشن کی کاپی عدالت میں جمع کرائی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمشن جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں بنایا گیا ہے اور کمشن کے دیگر ارکان میں ایڈیشنل آئی جی سندھ رفیق حسن بٹ اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ایبٹ آباد آزاد خان شامل ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ یہ انکوائری کمشن ہے نہ کہ جوڈیشل کمشن ان کا کہنا تھا کہ یہ کمشن محض تحقیقات کےلئے ہے۔ اس کے پاس جوڈیشل اختیارات نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم اس کمشن کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے کہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ حکومت خود چاہتی ہے کہ کیس کی تحقیقات ہوں اس لئے کمشن آف انکوائری بنایا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ دوررس نتائج کی وجہ سے اس کیس کو سن رہے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم آپ کو وقت دیں گے ۔ کیس کے اصل حقائق تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ چیئرمین نیب ایڈمرل (ر) فصیح بخاری اور آئی جی اسلام آباد بنیامین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق کمشن آف انکوائری کے دو کام ہوں گے ایک یہ کہ وہ کامران فیصل کی موت کی وجوہات معلوم کرے اور دوسرا وہ تمام حالات و واقعات جو کامران فیصل کی موت کے حوالہ سے ہیں ان کی انکوائری کرے گا، کمشن کو وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو کسی بھی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو حاصل ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی گواہ کو طلب کر سکتے ہیں۔ کسی سرکاری ادارے کو فریق بنا سکتے ہیں اور شواہد اکٹھے کرنے کےلئے اور حقائق جاننے کےلئے کسی بھی دستاویز کا معائنہ کرنے کے اختیارات رکھتے ہیں یہ کمشن کسی بھی ایسی تحقیقات کا حکم بھی دے سکتا ہے جو کامران کی موت سے منسلک ہوں گی۔