احسن اقبال اور عوا م کی عدالت؟
یہ 1993ءکے عام انتخابات سے پہلے کی بات ہے جب میاں نواز شریف کی حکومت کو بے نظیر بھٹو کا لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا جاتا ہے اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ ”عزیز ہم وطنو! السلام علیکم“ کہنے کے بجائے جمہوریت کو موقع دیتے ہیں اسلم بیگ کے بعد وحید کاکڑ شاید دوسرے آرمی چیف ہوں گے جنہوں نے اقتدار کا ہما اپنے سر سے ”اڑا“ دیا ورنہ جنرل جو کرتے رہے ہیں وہ تاریخ آپ کے سامنے ہے، میاں نواز شریف طوفانی انتخابی مہم شروع کرنے کے بعد ایک دن جلسہ عام کیلئے نارووال تشریف لاتے ہیں جلسہ عام سے پہلے وہ اپنی پارٹی کے ایم پی اے سید مظہر الحسن چن پیر کی وفات پر ان کے گھر تعزیت کیلئے آتے ہیں، تعزیت سے فارغ ہو کر نواز شریف جلسہ گاہ پہنچتے ہیں تو سٹیج سیکرٹری سعید الحق ملک شرکا کو گرمانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ شیخ رشید ان دنوں اپنی ”مخصوص تقاریر“ کے حوالے سے بہت شہرت رکھتے تھے جلسہ اپنے اختتام کو پہنچنے لگتا ہے تو میاں نواز شریف ایک نوجوان کو ”عوام کی عدالت“ میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نوجوان کبھی ”لوٹا“ نہیں بنے گا میاں نواز شریف نے جس نوجوان کی ہزاروں افرادکے سامنے ”رونمائی“ کرائی وہ احسن اقبال تھے‘ میاں نواز شریف نے ”لوٹے“ پر زیادہ زور اس لئے دیا تھاکہ 1988ءکے انتخابات میں اس حلقہ سے ان کی پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہونے کے بعد انوارالحق چودھری اپنی وفاداریاں تبدیل کرکے پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے تھے، انوارالحق چودھری نے اس وقت تو اپنی ”دنیا“ سنوار لی لیکن حلقہ این اے 90 (موجودہ این اے 117) کے عوام ابھی تک انکی ”عاقبت“ خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ انوارالحق چودھری جو 1988ءمیں بھاری اکثر یت سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اب اتنے فرق سے ہارتے ہیں یہ ہے ووٹر کا ”انتقام“ جو گزشتہ 24 سال سے جاری ہے اگر پورے پاکستان کے ووٹر ضمیر کے سوداگروں کے بارے میں یہی سوچ اپنا لیں تو پھر کسی ”میثاق جمہوریت“ کی ضرورت باقی رہتی ہے نہ فارورڈ بلاک کا ”اصطبل“ خریدنے کی۔ احسن اقبال بھاری اکثریت سے جیت کر قومی اسمبلی میں پہنچے تو بہت جلد ان کا شمار دلیل سے بات کرنے والے پارلیمنٹرینز میں ہونے لگا‘ احسن اقبال چونکہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے تھے لہذا وہ نارووال کو ”نیویارک“ بنانے کا کوئی انتخابی وعدہ پورا نہ کر سکے لیکن جب 1996ءکے انتخابات میں وہ حکومتی بنچوں پر بیٹھ گئے تو بھی علاقہ کے عوام کو کچھ نہ ملا حالانکہ ان دنوں میں احسن اقبال علاقے کی ترقی کے لئے جو چاہتے کرا سکتے تھے، اس دوران جب 12 اکتوبر 1999ءکو فوجی آمر مشرف نے دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو مشرف نے نواز شریف کے رفقاءمیں سے کچھ کو لالچ دے کر خریدا تو کچھ کو ڈرا دھمکا کر ساتھ ملا لیا لیکن احسن اقبال پھر بھی ”لوٹا“ نہ بنا‘ نواز شریف جن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ بھی دغا دے گئے۔
احسن اقبال نے نارووال کے صحافیوں کے لئے وہی کارنامہ انجام دیا ہے جو غلام حیدر وائیں نے لاہور کے صحافیوں کو ”شملہ پہاڑی“ دیکر کیا‘ چند روز قبل سعید الحق ملک صاحب کا فون آیا ہے کہ پریس کلب کا افتتاح ہے آپ نے بھی آنا ہے؟ ہم نے پوچھا کہ ملک صاحب! کس پارٹی کے پریس کلب کی بات کر رہے ہیں (ن) لیگ‘ پیپلزپارٹی‘ پی ٹی آئی یا ق لیگ؟ کیونکہ آج کل تو ہر رکن اسمبلی کم از کم ایک ”پریس کلب“ اپنی جیب میں ڈالے پھرتا ہے اور پورے ملک کے چھوٹے بڑے قصبوں کی طرح فیض احمد فیض کے شہر میں بھی ریڑھی بان ”صحافی“ بن چکے ہیں، ٹائروں کی دکانوں، ہسپتالوں اور لاری اڈوں پر ”پریس کلب“ کے بورڈ لگ چکے ہیں، جب سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نارووال آئے تو انہوں نے بھی ان ”پریس کلبوں“ کو ہی لاکھوں روپے کے چیک دیئے جن کی ہمدردیاں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھیں، احسن اقبال نے نارووال میں پریس کلب کی عمارت بنوا کر صحافیوں کے حوالے کر دی ہے لیکن اس پر ”قبضہ“ اگر صرف ایک پارٹی کا رہنا ہے تو پھر احسن اقبال بھی ”مرشدپاک“ ہیں؟ اگر سیاستدانوں کو پارٹیاں بدلنے کا حق حاصل ہے تو پھر صحافی کیا پریس کلب بھی نہیں بدل سکتے، ویسے بھی جس ملک میں جنرل کو ”سیاستدان“ اور سیاستدان کو ”آمر“ بننے کا حق حاصل ہو‘ وہاں کی صحافت کو بھی ”7 خون“ معاف ہوتے ہیں۔ 1993 اور 2013ءمیں مماثلت ہے یا مصالحت کہ 20 سال قبل لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی حکومت ختم ہو گئی لیکن اب لانگ مارچ ترلے منتوں سے ختم ہوا حکومت جوں کی توں ہے حکومت کا تختہ الٹنے کا عزم لیکر جانے والے اپنا سب کچھ ”لٹا“ کر لوٹے ہیں، جنرل پرویز کیانی نے بھی جنرل وحید کاکڑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”عزیز ہم وطنو! السلام علیکم“ کہنے کے بجائے جمہوریت کو موقع دیا ہے دوسری طرف بےشک ملک میں چہار سو کمیشن کے چرچے ہیں خدا کرے سلیکشن کے بجائے الیکشن ہو جائے ورنہ آپ خود سمجھ دار ہیں؟ احسن اقبال ”لوٹا“ نہ بن کر میاں نواز شریف کی امیدوں پر تو یقیناً پورا اترے ہیں لیکن کیا وہ اپنے ووٹرز کے اعتماد پر پورا اترے ہیں فیصلہ ”عوام کی عدالت“ پر چھوڑا جاتا ہے؟