• news
  • image

ہمیں کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے : حافظ سعید ۔۔۔ جہاد کے بغیر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا : مجید نظامی

لاہور (خصوصی رپورٹر) جہاد کے بغیر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔ میں پاکستان کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔ تلوار، میزائل اور ایٹم بم کے بغیر مذاکرات یا تجارت کے ذریعے ہم کشمیر حاصل نہیں کر سکتے۔ جب تک کشمیر حاصل نہیں ہو جاتا ہمیں بھارت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن‘ ممتاز صحافی اور نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین مجید نظامی نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان‘ شاہراہ قائداعظمؒ لاہور میں یوم یکجہتی¿ کشمیر کے سلسلے میں منعقدہ خصوصی نشست سے صدارتی خطاب کے دوران کیا۔ اس نشست کے مہمان خاص امیر جماعت الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید تھے۔ نشست کا اہتمام نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا۔ اس موقع پر بیگم ثریا کے ایچ خورشید، میجر جنرل (ر) راحت لطیف، صوبائی پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد، مولانا محمد شفیع جوش، مرزا محمد صادق جرال‘ پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی‘ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے سیکرٹری رفاقت ریاض‘ اساتذہ¿ کرام‘ طلبہ اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتےن و حضرات کثیر تعداد میں موجود تھے۔ نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک‘ نعت رسول مقبول اور قومی ترانے سے ہوا۔ تلاوت کی سعادت حافظ محمد عمر اشرف نے حاصل کی جبکہ عدنان اشرف نے بارگاہ رسالت ماب میں ہدیہ¿ نعت پیش کیا۔ نشست کی نظامت کے فرائض نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دئیے۔ پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ماضی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے مواقع ہماری سیاسی و عسکری قیادت کے متحد نہ ہونے کی وجہ سے ضائع کر دئیے گئے۔ 1947-48ءمیں جب بھارت نے کشمیر میں اپنی افواج داخل کیں تو قائداعظمؒ نے آرمی چیف کو حکم دیا وہ اپنی فوج کشمیر میں داخل کر دیں لیکن انگریز آرمی چیف نے آپ کا حکم نہ مانا اور فوج داخل کرنے سے انکار کر دیا۔ 1998ءمیں جب پاکستان ایٹمی قوت بن گیا تو بھارت کو سخت مایوسی ہوئی۔ واجپائی نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہ وہی واجپائی ہے جس کا تعلق بی جے پی سے ہے جس کے بارے میں گذشتہ دنوں بھارتی وزیر داخلہ نے بیان دیا ہے کہ بی جے پی ایک دہشت گرد ہندو تنظیم ہے جس کے متعدد ٹریننگ سنٹر ہیں جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ 1999ءمیں تحریک آزادی¿ کشمیر اپنے عروج پر تھی اور بھارت کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا تھا کہ کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا چنانچہ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اور مینار پاکستان پر بھی گیا تاہم اصل صورتحال کچھ اور تھی۔ کارگل ایشو پر بھی سیاسی و عسکری قیادت میں اختلاف تھا۔ اس وقت میں خود وہاں موجود تھا اور ہماری کیا کیفیت اور ہولڈ تھا میں خوب جانتا ہوں۔ اس وقت انڈیا کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے بھارت نے امریکہ کو مداخلت کیلئے کہا۔ اس موقع پر ہم ہوش کے ناخن لیتے اور قرآن پاک کے اصولوں کے مطابق ثابت قدم اور متحد رہتے توکامیابی ہمارا مقدر بنتی۔بھارت نے سازش کی اور ہمارے اختلافات کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ آپسی اختلافات کی وجہ سے جہادکشمیر کو بھی بہت نقصان ہوا۔ موجودہ حالات میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کشمیر کی آزادی کا ایک موقع آرہا ہے۔ میری تجویز ہے مجید نظامی کی قیادت میں باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ماضی کی غلطیوں کے ازالے اور آئندہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک پلان تیار کرے۔ کشمیر ی آج بھی پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے آئندہ غلطیاں نہ دہرائی جائےں اورہماری سیاسی و عسکری قیادت متحد ہو کر بھارت اور اسلام دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنادیں۔ بھارت افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو افواج یہاں آئیں تو اس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ ایک نقصان جدوجہد آزادی¿ کشمیر کا ہوا۔ گذشتہ 11 برسوں میں انڈیا کو کھلا موقع ملا اوراس نے افغان بارڈر کے ساتھ دہشت گردی کے متعدد ٹریننگ کیمپ قائم کئے جہاں سے دہشت گرد پاکستان کے اندر تخریب کاری کر رہے ہیں اور بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی ساش کی جارہی ہے۔گذشتہ 11 برسوں میں انڈیا نے متعدد ڈیمز بھی مکمل کئے ہیں۔ اب صرف کشمیر کے متنازع مسئلہ کی ہی بات نہیں ہے بلکہ صورتحال بہت آگے نکل چکی ہے۔ اس وقت انڈیا کشمیر کو پاکستان کیخلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی خوفناک پلاننگ کر رہا ہے۔ بھارت دریاﺅں پر 250 ڈیمز مکمل کرنے کا پروگرام بنا چکا ہے جن میں سے 62 مکمل ہو چکے ہیں۔ قائداعظمؒ نے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کشمیر کو ہماری شہ رگ قرار دیا تھا۔ گذشتہ 11 برسوں میں پاکستان کی کشتی نکل کر ساحل کی طرف بڑھ رہی ہے ان برسوں کے دوران دشمنوں کی لاکھ سازشوں کے باوجود پاکستان کا زندہ رہنا اور بلوچستان کا موجود رہنا اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا انعام ہے۔ آج مایوسی پھیلائی جا رہی ہے اور منفی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یادرکھیں مایوس قوم کچھ نہیں کر سکتی اور امیدوں کا چراغ جلانے والے ہی منزل پر پہنچتے ہیں۔ دشمن انڈیا آئندہ کی پلاننگ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ امن کی آشا اور دوستی کی باتیں اس وقت شروع ہوئیں جب بھارت کو یہ معلوم ہو گیا کہ امریکہ اور اتحادی یہاں سے ناکام ہو کر واپس جا رہے ہیں۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر حالات خراب کر کے خود ہی عالمی دنیا کے سامنے رو روکر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آج بھارت کو واضح نظر آرہا ہے کہ کشمیر اس کو چھوڑنا پڑے گا۔ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان میں مزید نہیں رک سکتا اور شکست کھا کر واپس جا رہا ہے۔ یہ بھارت والوں کیلئے عبرت اور سبق ہے کہ انہیں بھی کشمیر سے نکلنا پڑے گا۔ مستقبل میں عالم اسلام کیلئے نہایت شاندار دور آ رہا ہے۔ وہ وقت قریب ہے جب نہ صرف کشمیر بلکہ عالم اسلام کے کسی بھی خطہ پرکسی کا قبضہ باقی نہیں رہے گا۔ امریکہ اور نیٹو کی واپسی سے ایک پورا نظام یہاں سے جا رہا ہے اور اسلام کا نظام واپس آرہا ہے۔ مایوس ہونے کی بات نہیں پاکستان جلد ہی ایک مضبوط، مستحکم معاشی طاقت کے طور پر ابھرے گا۔ سازشیں ہو رہی ہیں لیکن انہیں ناکامی ہو گی۔ تحریکوں پر مختلف مواقع آتے ہیں ۔سلام ہے کشمیریوں پر کہ انہوں نے گذشتہ 11 برسوں میں بھی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا ہے۔کشمیر کی تحریک عالمی تحریکوں میں ایک شاندار تحریک ہے۔امریکہ کی اس خطہ سے واپسی کے بعد جو حالات ہوں گے ہمیں اس موقع سے متحد ہو کر اور مناسب حکمت عملی سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہو گا۔ آزاد پاکستان ہی کشمیر کی آزادی کا ضامن ہے۔کشمیر کیلئے گذشتہ فوجی رجیم میں جو موقف کمزور ہوا تھا پاکستان کو اپنا ماضی والا م¶قف بھرپور طریقے سے دہرانا ہوگا۔آج کام کرنے کا وقت ہے ہم یکجہتی کیلئے کام نہ کر سکے تو پھر نقصان اٹھائیں گے۔ ہمیں امریکی دباﺅ اور بھارتی سازشوں کی شکار پالیسیوں سے نکل کر اپنے اوپر کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ یہ آسان کام نہیں لیکن اس کیلئے محنت کرنا ہو گی۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں انڈیا کی بجائے کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ انڈین آرمی چیف کے حالیہ بیانات درحقیقت خوف پر مبنی ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری پالیسی قائداعظمؒ نے طے کردی تھی کہ اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔ ہماری کمزوری باہمی اختلاف کی وجہ سے ہے لیکن اب کشمیر کی آزادی کو زیادہ دیر نہیں لگے گی۔آج ہمیں ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہے۔کشمیری اور ہم ایک ہیں۔ بھارت کے ساتھ سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بات چیت کرنا ہو گی۔ مذاکرات سے بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے بھارت ہٹ دھرمی والا رویہ ترک کرے،کشمیر سے فوجیں واپس بلائے اور ڈیموں کی تعمیر بند کر دے۔ بھارت فیصلہ کرے کہ اس نے مذاکرات سے مسائل حل کرنا ہیں یا جنگ کے ذریعے۔ آج یوم یکجہتی کشمیر پورے پاکستان میں جوش و خروش سے منایا جائے گا۔ قوم کے اندر شعور بیدار کیا جائے گا اور ان کے سامنے بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کیا جائے گا۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ زبانی ہی نہیں عملی یکجہتی کا اظہار کر کے دکھائیں گے۔ کشمیر کی آزادی کی منزل قریب ہے ہمیں اس موقع کو ضائع ہونے سے بچانا ہو گا۔ مجید نظامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا حقیقت یہ ہے میرا کشمیر سے ایک خاص تعلق ہے۔ اس ایوان میں کوئی خالص کشمیری بیٹھا ہوا ہے تو اس نے شوپیاں کا نام ضرور سنا ہو گا۔ میری اہلیہ مرحومہ کا تعلق بھی شوپیاں سے تھا۔وہ اکثر کہتی تھیں مجھے کشمیر لے چلیں، میں شوپیاں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کر سکا کیونکہ میری یہ شرط تھی جب تک کشمیر آزاد نہیں ہو جاتا میں وہاں نہیں جاﺅں گا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے دو قومی نظریہ دیا اور انہوں نے ہی قائداعظمؒ کو چنا کہ وہ لندن سے واپس آئیں اور قوم کی رہنمائی فرمائیں۔ اسی شہر لاہور میں 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور 14 اگست 1947ءکو پاکستان معرض وجود میں آگیا جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت تھی۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور ہم بھی اس دور میں ”پاکستان کا مطلب کیا.... لاالہ الا اللہ“ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ اسلامیہ کالج لاہور میں وزیراعظم لیاقت علی خان نے مجھے اور ڈاکٹر رفیق احمد کو مجاہد پاکستان کا سرٹیفکیٹ دیا اس لحاظ سے میں سرٹیفائیڈ مجاہد ہوں۔ میں پاکستان کیلئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہوں۔ میں متعدد مرتبہ کہہ چکا ہوں قرآنی زبان میں آج کل کے ہتھیار ایٹم بم اور میزائل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے یہ گھوڑے بھارتی کھوتوں (گدھوں) سے نہایت بہتر ہیں۔ کبھی پاکستان اور انڈیا کی لڑائی ہوئی تو وہ کشمیر کے مسئلہ پر ہی ہو گی۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور جس طرح ایک انسان اپنی شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح ایک قوم بھی اپنی شہ رگ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مجید نظامی نے حاضرین سے کہا وہ حافظ محمد سعید کی زیرکمان جہاد کیلئے تیار رہیں کیونکہ جہاد کے بغیر کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا۔ ہماری شہ رگ (کشمیر) ہمارے پاس نہیں ہو گی تو چند برسوں میں ہماری زمین بنجر اور ریگستان بن جائے گی۔ پاکستان کی معیشت زرعی ہے اور اس کیلئے پانی بہت ضروری ہے، ہمارے تمام دریاﺅں کے منبع ان کے پاس ہیں لہٰذا کشمیر بھارت سے حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان پر انگریز نے حکومت کی اور جانے سے قبل تقسیم ہند کا فیصلہ کیا۔ یہاں پر مسلمانوں نے بھی ایک ہزار سال تک حکومت کی ہے اور یہ بات ہندو کو آج تک ہضم نہیں ہو سکی اور ان کی پوری کوشش تھی مسلمانوں کو پاکستان نہ ملے تاہم یہ عجیب بات ہے مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود یہ ملک معرض وجود میں آگیا۔ بعدازاں ہماری حماقتوں سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ وہاں اب مجیب کی بیٹی حکمران ہے، اس کا حشر بھی مجیب کی طرح ہو گا کیونکہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی غدار ہے۔ بھارت، امریکہ اور اسرئیل کو میں شیطانی اتحاد ثلاثہ سمجھتا ہوں۔ ایک دفعہ میرے پاس امریکن قونصل جنرل آئے اور مجھے امریکی قیادت کا یہ پیغام پہنچایا ہمیں شیطانی اتحاد ثلاثہ نہ کہا کریں ۔میں نے ان سے کہا میں کوشش کروں گا لیکن یہ میرے لئے ممکن نہیں۔ آپ دیکھ اور سن رہے ہیں میں یہ ٹرم آج بھی استعمال کر رہا ہوں۔ یہ ہمارے ازلی دشمن ہیں۔ خاص کر بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور جب تک ہم اس کا قلع قمع نہیں کر دیتے ہم باعزت قوم کی طرح نہیں رہ سکتے۔ ہمیں باعزت قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کیلئے اس شیطانی اتحاد ثلاثہ کے سر یعنی بھارت کو اڑانا ہو گا۔ انہوں نے کہا حافظ محمد سعید نے یہ تجویز دی ہے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے میری قیادت میں ایک کمیٹی قائم کی جائے تو میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کوئی بھی کمیٹی مسئلہ حل نہیں کرتی میرے خیال میں صرف شمشیر ہی کشمیر کا مسئلہ حل کرے گی۔ پہلے جہاد میں جب آزادکشمیر حاصل کیا اور مجاہدین سری نگر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس وقت سول لائن لاہور میں مسلم لیگی رہنما چودھری عبدالکریم گھوڑے پر بیٹھ کر مجاہدین کیلئے چھوٹے ہتھیار اور کھانے پینے کی اشیا لے کر جاتے تھے اور ہم ان کے گھر بیٹھ کر انہیں بوریوں میں یہ اشیا باندھ کر انہیں دیتے تھے۔ اس طرح میں نے شروع سے ہی اس جہاد میں کسی نہ کسی انداز میں حصہ لیا ہے۔ میں اب بھی جہاد کیلئے تیار ہوں آپ مجھے کسی میزائل یا ایٹم بم سے باندھ کر بھارت پر مار دیں۔ تقسیم ہند کے بعد جب بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیں تو حضرت قائداعظمؒ نے جرا¿ت ایمانی سے کام لیتے ہوئے اپنے کمانڈر انچیف کو حکم دیا کشمیر میں اپنی فوج داخل کر دو۔ کمانڈر انچیف انگریز تھا۔ اس نے کہا میرا چیف کمانڈر دہلی میں بیٹھا ہے‘ میں اس کی اجازت لے لوں چنانچہ اس نے نا فرمانی سے کام لیتے ہوئے قائداعظمؒ کا حکم ماننے سے بالواسطہ طور پر انکار کر دیا اور یوں یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے وقت گزرنے کے ساتھ مزید بگڑتا چلا گیا۔ ہماری فوج دنیا کی نمبر ایک فوج ہے۔ہمارے پاس میزائل اور ایٹم بم بھی موجود ہیں۔ پاکستان اپنے ازلی دشمن بھارت کو تباہ و برباد کر سکتا ہے بشرطیکہ ہم ایمان کے ساتھ ان سے جنگ کریں۔ تلوار، میزائل اور ایٹم بم کے بغیر مذاکرات یا تجارت کرکے ہم کشمیر حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ میںکشمیر سمیت دیگر مسائل حل کئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کے حامیوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ جب تک کشمیر حاصل نہیں ہو جاتا ہمیں بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہئے، ان حالات میں بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینا بے حیائی کی انتہا ہے۔بیگم ثریا خورشید نے کہا قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اس لئے قرار دیا تھا کہ وہ پاکستان کے لئے کشمیر کی حیثیت کو سمجھتے تھے۔ کشمیری آزادی کی جنگ لڑ رہے ہےں اور انشاءاللہ بھارت کے چنگل سے آزادی حاصل کر کے رہےں گے۔ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہی اس ملک کی بقا کی ضمانت ہے۔ مجید نظامی ہمارا سرمایہ¿ حیات ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے حکمرانوں پر زور دیتے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی آج تک یہ مسئلہ زندہ ہے ورنہ ہمارے حکمران تو اسے فراموش کر چکے تھے۔ ممتاز کشمیری رہنما مولانا محمد شفیع جوش نے کہا مظلوم کشمیری ساٹھ سال سے زائد عرصہ سے بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں اور یوں پاکستان کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیری پاکستان کو اپنا حقیقی وکیل تصور کرتے ہیں اور اس سے توقع رکھتے ہیں وہ بھارت سے اس وقت تک مذاکرات نہ کرے گا جب تک کہ مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا۔ مرزا صادق جرال نے کہا مجید نظامی اور ان کی زیر قیادت نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور نوائے وقت گروپ نے ہمیشہ کشمیر کاز کو آگے بڑھایا ہے اور اہل کشمیر ان کے اس خلوص اور مساعی کو قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ امن کی آشا کشمیریوںکے خون سے غداری کے مترادف ہے۔ کشمیریوں کی تحریک آزادی ساٹھ برس سے زائد کے عرصے پر محیط ہے۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے کشمیریوں نے ایک قرارداد کے ذریعے سے اس بات کا اظہار کر دیا تھا کشمیر ی پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ یہ خواہش نصف صدی سے تشنہ چلی آرہی ہے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے لوگوں کو حق خوداردایت دیا جا سکتا ہے تو کشمیریوں کو کیوں نہیں دیا جا رہا۔ میجر جنرل (ر) راحت لطیف نے کہا مسئلہ کشمیر اس وقت حل ہو گا جب حکومت اسے قومی مقصد بنائے گی۔ بھارت پر کسی قسم کا کوئی دباﺅ ہو گا تو مسائل حل ہوں گے۔آج ہم نے ان پر سے مجاہدین کا دباﺅ بھی ختم کردیا ہے۔ بھارت لابی کے دباﺅ پر امریکہ نے بھی اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔ ماضی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے کم ازکم تین مواقع ضائع کر دئیے گئے۔ کشمیری اس مسئلہ کے اہم فریق ہیں۔ صوبائی پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد ارشد نے کہا کشمیر کے معاملے پر ہم تاریخی غلطیوں کے مرتکب نہ ہوتے تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ اور نوائے وقت تو کشمیر کے حوالے سے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں مگر اب قوم کو بھی منظم ہونا پڑے گا کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان سرسبز و شاداب نہیںرہ سکتا۔ اہلےان کشمےر پاکستان کو اےک مضبوط و توانا پاکستان دےکھنا چاہتے ہےں کےونکہ اےسا پاکستان ہی کشمےر کے محافظ کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ کشمیریوں کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا اور انشاءاللہ وہ جلد ہی اپنی منزل پا لیں گے۔ نظرےہ¿ پاکستان ٹرسٹ کے سےکرٹری شاہد رشےد نے شرکا کاخیرمقدم کرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔انہوں نے کہا نظرےہ¿ پاکستان ٹرسٹ مجےد نظامی کی سرپرستی مےں ہر مرحلے پر مسئلہ کشمےر کے حل کی آواز بلند کرتا رہا ہے اور کشمےرےوں کی تحریک آزادی کے ساتھ مکمل طور پر اظہار ےکجہتی کرتا ہے۔ اُنہوں نے کہا مجےد نظامی نے اہالےانِ کشمےر کی مدد کے لئے بھرپور کردار ادا کےا اور آج بھی ان کے ادارے اس ضمن مےں مسلسل مصروف عمل ہےں۔ پروگرام کے دوران نوازش علی بٹ، ڈاکٹر فرزانہ نذیر اور ابو بلال نے نظمیں سنائیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن