کشمیر کے امکانی حل .... تاریخ کے تناظر میں ....(۱)
مسئلہ کشمیر کا حل مشکل اور پیچیدہ ہے۔ مگر اس کے پرامن اور دیرپا حل کے بغیر جنوبی ایشیا جوہری جنگ کی زد میں رہے گا۔ مسائل خود بخود حل نہیں ہوتے‘ انہیں حل کیا جاتا ہے اور حل کرنے کیلئے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ جو قانون اور انصاف پر مبنی ہوتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا بہترین اور پرامن حل تقسیم ہند کا وہ بنیادی اصول ہے جو قیام پاکستان کی بنیاد بنا۔ یہی دو قومی نظریے کا اصولی ہندی ریاستوں کے الحاق کا رہنما اصول بھی تھا۔ ریاستوں کے الحاق میں ریاستی آبادی کا مذہب کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔ کسی ہندی ریاست (کل کی تعداد 568) کو علیحدہ اور خودمختار حیثیت اپنانے کا حق نہیں دیا گیا۔ حیدر آباد دکن کے حکمران مسلمان تھے مگر آبادی کی اکثریت غیر مسلم تھی جبکہ ساری غیر مسلم آبادی مسلم حاکم کی طرز حکمرانی سے خوش اور خوشحال تھی۔ نواب حیدر آباد نے پاکستان سے الحاق چاہا جو تقسیم ہند کے اصولی دو قومی نظریے کے منافی تھا‘ لہٰذا الحاق نہ ہو سکا۔ نواب حیدر آباد یعنی مسلم حاکم نے علیحدہ‘ جداگانہ‘ خودمختار حیثیت اپنانا چاہی تو ہندو بھارت نے حیدر آباد پر فوجی آپریشن کر کے جبری الحاق کر لیا اور حیدر آباد دکن کے مسلم حاکم کو معزول کر دیا گیا۔ اسی طرح جوناگڑھ اور مناور وغیرہ کا بھارت سے الحاق بھی جبری فوجی آپریشن کا نتیجہ ہے۔ ہندو بھارت کا پہلا گورنر جنرل لارڈ ما¶نٹ تھا۔ یہ برطانوی ہند کا آخری وائسرائے بھی تھا۔ اس کی ہندو نوازی معروف تھی جس کے باعث ہندی مسلمان اسے پنڈت ما¶نٹ بیٹن کہتے تھے۔ یہ قائداعظم اور مسلمانوں کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی نظر میں تحریک و قیام پاکستان احمقانہ خواب تھا۔ جبکہ برطانوی وزیراعظم مسٹر ایٹلی نے قیام پاکستان کو اپنے دور کا ”ناگوار ترین واقعہ“ قرار دیا۔ بقول مسٹر ایٹلی قائداعظم نے ہندی مسلمانوں کو ملی وحدت اور قومی اخوت کے علم تلے پاکستان کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو سارا ہندوستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جاتا اور اشتراکی روس براستہ کابل ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ علاوہ ازیں مسلمان بہترین فوجی اہلیت و صلاحیت کے حامل تھے اور تاحال ہیں‘ ان کو دبانا آسان نہیں تھا۔ جبکہ خانہ جنگی کے نتیجے میں سارا ہندوستان (متحدہ) بھی مسلمان قوم کے ہاتھ لگ سکتا تھا۔ لہٰذا قیام پاکستان کو ”کمتر ناپسندیدہ حقیقت“ کے طور پر قبول کیا گیا۔
تقسیم ہند کے وقت کشمیر میں دو جماعتیں مسلم اور نیشنل کانفرنس کام کر رہی تھیں۔ مسلم کانفرنس نے 19 جولائی 1947ءکو الحاق پاکستان کا مطالبہ اور تحریک شروع کی۔ جبکہ نیشنل کانفرنس کانگرس کی متحدہ قومیت کی حامی تھی۔ اس کی بنیاد نیشنلزم اور سیکولرزم تھی۔ نیشنل کانفرنس کی سرپرست برطانوی حکومت اور ہندو قیادت تھی۔ جبکہ کشمیر کا حاکم مہاراجہ ہری سنگھ (ڈوگرہ) اور آبادی کی اکثریت مسلمان تھی۔ نیشنل کانفرنس 1938ءمیں بنی اس کا پس منظر قادیانیت کے بارے میں مشہور اقبال نہرو مکالمہ تھا‘ علامہ اقبال کا مشہور جملہ ہے۔ ”قادیانی دین اور وطن کے غدار میں“۔ مذکورہ بالا دونوں جماعتوں کا پس منظر تحریک حریت کشمیر اور کشمیر ایکشن کمیٹی تھا‘ جو ڈوگرہ راج کے ظلم اور زیادتی کے خلاف کارفرما تھیں۔ نیز یہ جماعتیں کشمیری مسلمانوں کی اخلاقی‘ اصلاحی اور بہبودی کا کام بھی کر لی تھیں۔ کشمیر ایکشن کمیٹی کے صدر علامہ اقبال اور سیکرٹری مرزا بشیر احمد قادیانی تھے۔ کشمیری مسلمانوں نے علامہ اقبال سے شکایت کی کہ مرزا بشیر احمد کی ترجیح قادیانیت کی تبلیغ ہے۔ (جاری)