صدر سیاسی عہدہ جلد چھوڑ دیں گے : وکیل وفاق ۔۔۔ لاہور ہائیکورٹ نے تاریخ مانگ لی
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے وفاق کے وکیل کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ تاریخ پر صدر سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ سیاسی عہدہ کب چھوڑیں گے۔ صدر کے دو عہدوں کے خلاف درخواست میں وفاق کے وکیل وسیم سجاد نے گذشتہ روز آئندہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے اور صدر کی جانب سے جلد ہی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے کی تحریری یقین دہانی کروا دی اور کہا کہ صدر زرداری جلد سیاسی عہدہ چھوڑ دیں گے اور اب ایوان صدر کو پی پی کی سیاسی سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا کوئی اجلاس ایوان صدر میں ہو گا۔ عدالت نے ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں بند کرنے کے بیان کو خوشگوار بات قرار دیتے ہوئے وفاق کے وکیل کو حکم دیا کہ وہ آئندہ تاریخ پر صدر سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ سیاسی عہدہ کب چھوڑیں گے۔ صدر زرداری کی پیپلز پارٹی بھی سیاسی ایجنڈا رکھتی ہے وہ ایک بااثر تنظیم ہے آپ صدر مملکت سے ہدایات لیں کہ وہ اپنا سیاسی عہدہ کب چھوڑ رہے ہیں اور اگر وہ ایک تنظیم کے شریک چیئرمین ہیں تو عدالت بھی اس پر غور کرے گی۔ عدالت نے وسیم سجاد کو ہدایت کی کہ وہ اس حوالے سے دلائل بھی دیں کہ کیا ان کے سیاسی عہدے سے دو عہدے چھوڑنے سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلہ سے ٹکراﺅ تو نہیں۔ عدالت نے وسیم سجاد کو کہا کہ عدالت آپ کا جواب قبول کرتی ہے تاہم اس اہم نکتہ پر بھی غور کیا جانا چاہئے۔ وفاق کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ صدر کے پاس کوئی سیاسی عہدہ اور سیاسی ایجنڈا نہیں ہے جس پر عدالت نے وفاق کے وکیل سے صدر کی طرف سے سیاسی عہدہ چھوڑنے سے متعلق مزید تفصیلات طلب کرتے ہوئے سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔ سماعت کے دوران درخواست گذار اے کے ڈوگر اور حکومتی وکیل وسیم سجاد اور ایڈیشل اٹارنی جنرل کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ وسیم سجاد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری جس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں وہ ایک غیر فعال جماعت ہے۔ موجودہ حالات میں تو اس جماعت کو پرائیویٹ ایسوسی ایشن کہنا ہی مناسب ہو گا جو سیاسی جماعت اس وقت ملک میں برسر اقتدار ہے وہ پیپلز پارٹی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین ہے۔ حکومت میں شامل سیاسی جماعت کے سربراہ مخدوم امین فہیم اور سیکرٹری راجہ پرویز اشرف ہیں اس لئے صدر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست ناقابل سماعت ہے، اسے فاضل عدالت ناقابل پذیرائی قرار دے کر خارج کرے۔ بنچ کے رکن مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل وسیم سجاد سے پوچھا کہ کیا صدر جس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں وہ فعال نہیں ہے تو اس کے جواب میں وسیم سجاد نے کہا کہ وہ فعال نہیں ہے لیکن انتخابات قریب آ رہے ہیں وہ فعال ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر درخواست گذار اے کے ڈوگر نے وفاق کے وکیل وسیم سجاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل دینے سے پہلے آخری دو پیرا گراف پڑھیں تو آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ صورتحال کیا ہے تو اس کے جواب میں وسیم سجاد نے کہا کہ آپ مجھے ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے میں دلائل دے رہا ہوں مجھے دلائل دینے دیں۔ جس کے بعد اے کے ڈوگر کا وسیم سجاد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ فاضل عدالت نے فریقین کے وکلا کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل متعلقہ درخواست تک محدود رکھیں۔ وفاق کے وکیل نے مزید کہا زرداری جس پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں اس کا ایوان صدر میں کبھی کوئی اجلاس نہیں ہوا اور نہ ہی وہ پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کر رہی ہے کیونکہ یہ الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہی نہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ این جی او ہے جس کا ایجنڈا سیاسی ہے۔ اس موقع پر حکومتی وکیل وسیم سجاد نے عدالت کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ ایوان صدر میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہوں گی اور صدر مملکت بہت جلد سیاسی عہدہ چھوڑ دیں گے۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ سیاسی سرگرمیاں ایوان صدر میں نہیں تو کراچی میں ہو سکتی ہیں اس کے جواب میں وفاقی حکومت کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ ایوان صدر اسلام آباد میں ہے۔ باقی شہروں میں تو صدر کے گھر ہیں۔ اِس پر چیف جسٹس مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایوان صدر میں سیاسی سرگرمیاں بند کرنے کا بیان خوشگوار بات ہے۔ مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے وسیم سجاد سے پوچھا کہ کوئی ریکارڈ ہے کہ پیپلز پارٹی سیاست سے الگ رہے گی۔ جس پر وفاق کے وکیل وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ کوئی اپنے آپ کو سیاست سے الگ نہیں رکھ سکتا تاہم ایوان صدر کا معاملہ اور ہے۔ مسٹر جسٹس ناصر سعید نے قرار دیا کہ ہم پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں ہیں آپ ایسا تاثر دینا چاہتے ہیں کہ عدالت پیپلز پارٹی کے خلاف فیصلہ دے گی۔ ایوان صدر میں صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ کسی بھی جماعت کی سیاسی سرگرمیاں نہیں ہونی چاہئےں۔ بنچ کے فاضل ممبر مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ جب صدر مملکت کسی جلسے میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور دوسری جماعت کی مخالفت کرتے ہےں تو کیا وہ جانبداری نہیں ہو گی۔ درخواست گذار اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدالت میں جو بیان جمع کروایا گیا ہے وہ صدر کا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ صدر اب تک سیاسی پارٹی کی تمام سرگرمیوں کی ایوان صدر میں بیٹھ کر سربراہی کرتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ نے صدر زرداری کے خلاف توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کی جانب سے کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اہم نوعیت کا کیس ہے اس کو غیر معینہ مدت تک التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ کیس کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاق کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ عدالت کو بتا دیا ہے کہ صدر کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں جج صاحبان نے کہا ہے کہ میرے دلائل پر غور کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کو آگاہ کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی سیاسی جماعت نہیں ہے۔