میجر رشید وڑائچ مرحوم.... ایک رول ماڈل شخصیت
پیغمبر اسلام، آقائے دوجہاں اور سرور کائنات حضرت محمد غزوات کے موقع پر اکثر سیاہ رنگ کا عمامہ سر پر باندھ کر رکھتے تھے۔ پاک فوج کا یہ جوان بھی حضرت محمد کی سنت کی پیروی میں ایسا ہی کرتا تھا۔
1971ءکی جنگ میں وہ مشرقی پاکستان میں تھا۔ وہاں بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے ایک رات ایک ایسے محاذ پر اس وقت حملہ کر دیا جب اقوام متحدہ جنگ بندی کے لئے کوشاں تھی۔ حملہ غیرمتوقع تھا۔ گھمسان کا رن پڑا.... گولیوں کی تڑتڑاہٹ.... سنگینیں کلیجے چھلنی کر رہی تھیں.... دو بدو لڑائی بھی جاری تھی۔ پاک فوج کی بٹالین کے کیپٹن نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے گلے میں لپٹا سیاہ کپڑا سر پر کس کر باندھ لیا اور دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ پاک فوج کے شیردل جوان اس حملہ کو ناکام بناتے ہوئے دشمن کے علاقے میں گھس گئے۔ اس دوران ان کی مدد کے لئے پاک فوج کی مزید کمک بھی پہنچ چکی تھی۔ صورت حال معمول پر آئی تو پاک فوج کے جوان اکٹھے ہوئے۔ سب کی گنتی ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہماری بٹالین کے 200مجاہدین میں صرف 120جوان زندہ ہیں۔ اس پر تمام جوان میدان میں بکھر گئے۔ زخمیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ دس بارہ جوان زخمی ہوئے تھے۔ باقی سب شہید ہو گئے جس پر کیپٹن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔”اس نے کہا یہ شہید ہونے کا ایک نادر موقع تھا جو میری قسمت میں نہیں تھا۔“
جنگ سے واپسی پر پاک فوج کے قابل فخر جنرل امیر حمزہ نے یہ واقعہ سن کر اس کا کندھا تھپتھپایا اور کہا ”اللہ تعالیٰ تم سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے۔پاک فوج کے اس نوجوان کا اعزاز ہے کہ اس نے ہاری ہوئی جنگ میں دشمن کے ایک لیفٹیننٹ اور 20فوجیوں کو پکڑ لیا مگر جنگ کا نتیجہ بدل نہ سکا۔
ایک دوسرا واقعہ ملاحطہ کیجئے ؛خانہ کعبہ میں نماز کی ادائیگی کے بعد خلق خدا عبادت میں مصروف تھی۔ یکدم فضا پر ابر آلود بادل چھا گئے اور پھر رم جھم پھوار برسنے لگی۔ عام حالات میں سعودی عرب اور دیگر ممالک میں کم کم ہی بارش ہوتی ہے مگر اس روز بارش خوب برسی جس کے باعث خانہ کعبہ میں موجود عرب اور دوسرے لوگ بارش سے بچنے کے لئے خانہ کعبہ کے اطراف میں موجود برآمدوں میں چلے گئے۔ مگر ایک شخص بارش سے بے نیاز کھلے آسمان تلے عبادت میں مشغول رہا۔ بارش میں تھوڑی سی تیزی آئی تو وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور خانہ کعبہ کے قریب اس جگہ کھڑا ہو گیا جس جگہ خانہ کعبہ کی چھت پر برسنے والا بارش کا پانی جھرنے کی شکل میں نیچے گر رہا تھا۔ خانہ کعبہ کی چھت کا پانی جب جب اس شخص کے سراپا پر گرتا.... تب تب اس شخص کی مستی، سرشاری اور وارفتگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔محاذ جنگ پر شہادت کی آرزو پوری نہ ہونے پر آنسو بہانے اور خانہ کعبہ پر برستی بارش کے پانی سے اس طرح فیض یاب ہونے والے شخص کا نام میجر رشید وڑائچ ہے۔ میجر صاحب اس فانی دنیا میں نہیں رہے۔ انہیں اللہ کا مہمان بنے چار برس بیت گئے ہیں۔ آج ان کی چوتھی برسی ہے۔ وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ حضرت امیر حمزہؓ جرا¿ت بہادری اور دلیری کی وجہ سے ان کے آئیڈیل تھے۔ انکی بہت خواہش تھی کہ وہ حضرت امیر حمزہ پر کتاب لکھیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت امیر حمزہ پر تحقیقی کام نہ ہونے کے برابر ہوا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ لہٰذا انہوں نے کافی عرصہ تک اس پروجیکٹ پر کام کیا مگر وہ تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ یہ حسرت ان کے دل میں ایک کانٹے کی طرح چبھی رہی۔
میجر رشید وڑائچ کو زیادہ تر لوگ ”حزب اللہ تحریک“ کے امیر اور وزیراعظم معائنہ کمشن کے سابق ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ محاذ جنگ ہو یا عام زندگی۔ وہ ہمیشہ حالت جنگ میں ہی رہے۔ ان کی زندگی حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد سے بھی سرشار تھی۔ وہ ایک دردمند دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنی کروڑوں روپے کی جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر ان کی آمدن غریبوں کے لئے وقف کر دی تھی۔ ہسپتالوں میں مریضوں میں قرآن پاک اور تسبیحیں تقسیم کرنا ان کا معمول تھا۔
میجر رشید وڑائچ کوئی بڑے جاگیردار، فیکٹری اونر یا سرمایہ دار نہیں تھے۔ ان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ انہوں نے اپنا جہاں خود ہی پیدا کیا۔ وہ 67برس قبل سرگودھا کے چک 95جنوبی میں پیدا ہوئے۔ عام دیہاتی بچوں کی طرح بچپن گزارا، رات کو ماں کے پہلو میں لیٹ کر بہادروں اور مجاہدوں کے قصے کہانیاں سننا ان کے شب و روز تھے۔ ہماری والدہ محترمہ ایک تہجد گزار خاتون تھیں، وہ کہا کرتی تھیں کہ ”مرد اور گھوڑے میداناں وچ ای سجدے نے“ اسی طرح ہمارے والد محترم چودھری کرم الٰہی کا شمار بھی علاقے کی ممتاز مخیر شخصیات میں ہوتا تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد گاﺅں میں اپنی کئی ایکڑ ذاتی زرعی اراضی پر ہائی سکول بنایا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں نظریہ پاکستان فاﺅنڈیشن نے انہیں بعد از مرگ گولڈ میڈل کے اعزاز سے نوازا ہے۔
میجر رشید وڑائچ نے بعد ازاں فوج سے ریٹائرمنٹ لے کر سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ پھر ”حزب اللہ“ کے نام سے ایک جماعت بنائی اور اس کے فورم سے عالمی ناانصافیوں اور دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں انہیں وزیراعظم معائنہ کمشن کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا۔
پاکستان میں فلاحی معاشرہ کا قیام میجر رشید وائچ کا سب سے بڑا خواب تھا۔ وہ مسجد کو مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز، خوشیوں کا گہوارہ اور دکھی دلوں کا سہارا بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ”مسجد مرکز تحریک“ شروع کر رکھی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرائم، لڑائی جھگڑا، لین دین اور دیگر مسائل معززین علاقہ مسجد میں بیٹھ کر حل کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کا تھانہ کچہری کے ظالمانہ نظام سے جان چھوٹ جائے گی۔ زکوٰة، صدقات، فطرانہ، قربانی کھالیں، چند اور دیگر عطیات مسجد میں جمع کر کے یہ رقم غرباءمیں تقسیم کی جائے تو علاقے سے غربت دور ہو جائے گی۔