ملک کے اندر ملک سے باہر،یہ کیا ہورہا ہے ؟
بے اصولوں،اقربا پروریوں، لوٹ کھسوٹ کی داستانوں اور مفاد پرستوں نے پیارے پاکستان کے روشن چہرے پر داغ دھبے لگا رکھے ہیں کس کس سطح پر کیا کیا کچھ ہورہا ہے اور کس ڈھٹائی سے ہورہا ہے جان کر غم و غصہ میں مبتلا ہوا جاسکتا ہے یا آنسو بہائے جاسکتے ہیں کیا یہ باعث تعجب نہ ہونا چاہئے کہ لاہور میں ڈرگ کورٹ ایک متنازعہ حیثیت میں کام کر رہی ہے ڈرگ کورٹ کے موجودہ چیئرمین اختر حسین زاہد جو ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں وہ کون سی قوت ہے جس نے انہیں جوڈیشل پالیسی کے برخلاف انہیںریٹائرمنٹ کے چند روز بعد اس منصب پر فائز کردیا ۔ حالانکہ جوڈیشل پالیسی 2009ءمیں واضح طورپر تحریر ہے کہ:
"Instead of appointing retired judges / judicial officers as presiding officer af the special courts Tribunal-however, where such appointments are required to be made by direct recruitment then the same should be made from amongst the highly qualified and experienced advocates-their appointments / postings should be made on the recommendation of the cheif justice of concerened High court"
اس جوڈیشل پالیسی کے تحت لاہور ہائیکورٹ کے بھیجے گئے وکلاءکے پینل سے منتخب شدہ ایک جج کام کر رہے تھے لیکن ان کی جگہ دھکا شاہی کے ذریعے ہائیکورٹ کی جانب سے سفارش کے بغیر نیا جج مقرر کردیا گیا۔سوال پیدا ہوتا ہے یہ اقدام وفاقی سیکرٹری قانون نے از خود کیا یا کسی کے کہنے پر کیا دیگر محکموں میں من مانی تقرریاں تو سمجھ میں آتی ہیں لیکن وفاقی سیکرٹری قانون جو یقینی طورپر قانونی تقاضوں کو بھی جانتے ہیں اور جوڈیشل پالیسی سے بھی آگاہ ہیں وہ اس متنازعہ صورتحال کا حصہ کیوں بنے سوال پیدا ہوتا ہے اگر ہائیکورٹ کے APPROVED جج بحال ہوگئے تو موجودہ جج کے فیصلوں کی کیا قانونی حیثیت ہوگی اور جب تک وہ جو تنخواہیں وصول کرچکے ہوں گے وہ کس کھاتے میں جائیں گی سب سے زیادہ حیرت انگیز یہ ہے کہ ریٹائرڈ سیشن جج ہونے کے باوجود موجودہ جج نے جوڈیشل پالیسی کے برخلاف منصب کیوں قبول کیا موجودہ جج وضاحت کرناچاہیں تو یہ کالم حاضر ہے۔
پاکستانی سفارت خانوں کے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تکلیف دہ سلوک کی خبریںاب معمول کا حصہ ہیں۔ قصبہ شاہ کوٹ ضلع ننکانہ صاحب کے اعجاز محی الدین کی کہانی بھی اسی معمول کا تسلسل ہے جو 2009ءمیں رشتہ داروں اور دوست احباب سے قرض لیکر اپنے مستقبل کیلئے بحرین میں ایک الیکٹرونکس شاپ پر ملازم ہو اور جولائی 2011ءمیں موقع ملنے پر کے ایف سی میں بطور کک ملازمت اختیار کرلی بد قسمتی سے اس دوران کار پھسلنے سے کمر ٹانگوں اورسر میں چوٹیں آئیں جس سے بینائی متاثر ہوئی ان کے بقول کے ایف سی والوں نے علاج کرانے کی بجائے اس کا پاسپورٹ ضبط کرکے بھگوڑا قرار دیدیا تاہم مقامی پولیس سٹیشن میں رپورٹ پر پاسپورٹ واپس مل گیا بحرین کی عدالت میں زر تلافی اور علاج کیلئے بحرین کی عدالت میں سفارت خانے کی معاونت سے اپیل دائر کی گئی لیکن سفارت خانے کی جانب سے فیس دینے سے انکار پر وکیل عدالت میں پیش نہ ہوا اور اعجاز محی الدین مسلسل سفارت خانے کی بے اعتنائی کا شکار رہا جس پر اس نے بحرین سے ایچ آر سی 24313/2012 چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو خط لکھا ان کی جانب سے جواب طلبی پر سفارت خانے نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ اس کا بحرین میں علاج کرایاجارہا ہے حالانکہ بحرین کے آئی سپیشلسٹ نے بحرین میں علاج ناممکن قرار دیا تھا سب سے مایوس ہوکر30نومبر 2012 کو پاکستان آکر سپریم کورٹ میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا تو لاہور ائر پورٹ پر انہیں کسی خطر ناک دہشت گرد کی طرح گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ اسکی سفری دستاویزات قانونی تھیں اور کیس واپس لینے کا دباﺅ ڈالا گیا 3روز بعد اسے دوبارہ حاضر ہونے کی شرط پر چھوڑا گیا سفارت خانے کی عدم دلچسپی کے باعث بحرین کی عدالت بھی توجہ نہیں دے رہی۔ 8جنوری 2013ءکو اعجاز محی الدین اپنے والد خالد جاوید مغل کے ہمراہ سپریم کورٹ گیا جہاں چیف جسٹس تک تو رسائی نہ ہوسکی البتہ پیش آمدہ واقعات کا نیا کیس 21013/923 درخواست کی شکل میں درج کرلیا گیا اعجاز محی الدین کے والد خالد جاوید مغل نے حکمرانوں کے در پر بھی دستک دی مگر اسکی کہیں نہ سنی گئی جبکہ اسکے بیٹے کی ایک آنکھ بالکل ضائع ہوگئی ہے دوسری میں زخم تیزی سے پھیل رہا ہے یہ انتہائی بد قسمتی ہے کہ ایک ایسی سول حکومت کے دور میں لوگ صدر اور وزیراعظم کی بجائے چیف جسٹس کو دہائیاں دیں یہ چیف جسٹس کا کام نہیں ہے حکمران اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں جو انکی بنیادی ذمہ داری ہے خالد جاوید مغل سے فون نمبر 03007276250 اور03357276250 پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔