• news

ریپڈ بس منصوبہ کے انتخابی رنگ

عنازہ احسان بٹ ..........
لاہور میں ریپڈ بس سروس کا غلغلہ ہے۔ اعلان سے لے کر منصوبہ بندی‘ تعمیراتی کام اور تکمیل تک پہنچتے پہنچتے کئی تنازعات اس منصوبے کے دامن سے چپک چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اگرچہ ایک صنعتکار ہیں مگر انہوں نے اپنے گھر سے چند کلومیٹر دور واقع قائداعظم انڈسٹریل ایریا کو نظرانداز کیا۔ ملک ضروریات کے حوالے سے تبدیلی کے مرحلے میں ہے۔ نئی اشیاءضروریہ‘ خوراک کی پروسیسنگ‘ سکیورٹی آلات کی اسمبلنگ‘ ادویات کی تیاری اور ہائی ٹیک انڈسٹری لاکھوں بیروزگاروں کو روزگار فراہم کر سکتی تھی۔ پہلے بتایا گیا منصوبہ 30 ارب کی لاگت سے مکمل ہو گا۔ پھر یہ قم 35 ارب ہوئی۔ جوں جوں منصوبے کے نقائص سامنے آنے لگے لاگت بھی بڑھتی گئی۔ تخمینہ ہے کہ مکمل آپریشنل مرحلے تک آتے آتے اس پر اخراجات 100ارب روپے تک پہنچ جائیں گے۔دنیا بھر میں شکاگو‘ پیرس‘ لندن‘ نیویارک‘ ہانگ کانگ‘ ٹوکیو اور برلن کے ماس ٹرانزٹ منصوبوں کو مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے ہر منصوبہ مقامی آبادی کی سفری ضروریات‘ مسافروں کی مالی حالت‘ روٹ پر واقع کاروباری و صنعتی مراکز کی نوعیت اور قومی ترجیحات کو پیش نظر رکھ کر تیار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان منصوبوں کی تعمیر کے دوران نہ حکمران جماعتوں نے سیاست چمکائی اور نہ انتخابی پروپیگنڈا کیا۔ پورے پنجاب کے 9کروڑ سے زائد شہریوں کی ٹیکس اور بچت کو صرف ایک شہر کے اس منصوبے پر خرچ کردیا گیا۔ چار برس تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھنے والی پنجاب حکومت نے اپنے آخری برس میں ایک میگا پراجیکٹ شروع کر دیا۔ ماحولیاتی اور تکنیکی ضابطوں کی کھل کر خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ییلو کیب اور سستی روٹی کے بعد ایک اور ناکام منصوبہ ن لیگی حکومت کے سینے پر تمغہ بن کر آویزاں ہو رہا ہے۔ لاہور کے شہری ابھی تک حیران ہیں کہ چار سال پہلے یکایک ویگنیںبند کرکے شہریوں کو موٹر سائیکل رکشوں کے حوالے کیوں کیا گیا۔ عجلت پر مبنی فیصلوں کا اثر عوام کی زندگی پر اسی طرح منفی طور پر پڑتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک خبر سامنے آئی کہ ریپڈ بس منصوبے کی وجہ سے لاہور میں دس کے قریب ترقیاتی منصوبے ملتوی کر دیئے گئے۔ اس منصوبے نے لاہور شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں۔ یہ کاروبار نئی بس آنے سے بحال نہیں ہو سکیں گے۔ یہ کیسی بدحواستی ہے کہ پہلے ٹریفک وارڈنز پر عدم اعتماد کرتے ہوئے لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی میں ٹریفک کنٹرول کا الگ شعبہ قائم کیا۔ اب میٹرو بس کے لئے ایک بار پھر وارڈنز کو الگ شعبہ میں کھپایا جا رہا ہے۔ ایک سو ارب روپے کی رقم سے بہت کچھ کیا جا سکتا تھا۔ بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنایا جاسکتا تھا۔ صوبے بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا جس سے لاہور پر آبادی اور روزگار کا دباﺅ کم کیا جا سکتا۔ میٹرو یا ریپڈ بس منصوبہ نے لاہور شہر کے لئے خطرات بڑھا دیئے ہیں۔ سنا جا رہا ہے کہ ریپڈ بس چلنے کے ساتھ ہی لاہور میں دیگر ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھانے کی منظوری دی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ ابھی کئی رنگ دکھائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن