افغانستان کی فکر چھوڑ کر پاکستان کو تباہی سے بچائیں
صدر پاکستان آصف علی زرداری فرماتے ہیں کہ افغانستان میں جنگ پاکستان کیلئے تباہ کن ہے اس لئے افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ افغانستان کا درد پاکستانی حکمرانوںکے پیٹ میں گزشتہ بارہ سال سے کچھ اس طرح اٹھ رہا ہے کہ خود اپنے ملک کی سالمیت اور دفاعی تنصیبات کو ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت کو تباہ ، سیکورٹی اداروں اور عوام کو ذہنی طور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکہ نے افغانستان کو فتح کرنے کیلئے جنگ کا آغاز کیا تو پاکستانی حکمرانوں نے اپنا دامن بچانے کی بجائے پاکستان کو ہی بیس کیمپ میں تبدیل کرکے اپنی سالمیت کا سودا کچھ اس طرح کرلیا کہ پاکستان کے ہوائی اڈوں سے ہی پرواز کرنے والے ڈرون طیارے پاکستانی علاقوں پر آئے دن میزائل برساتے ہیںاور ہم بے گناہ اور معصوم پاکستانیوں کی شہادتوں پر امریکہ کو تنبیہ کرنے کی بجائے دو لفظی احتجاج کرنا بھی گناہ تصور کرتے ہیں دوسری جانب سرزمین افغانستان سے پاکستان پر اتنی بار جارحانہ حملے ہوچکے ہیں کہ بھارت سے زیادہ اب ہمیں مغربی سرحدیں غیر محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی جب بھی زبان کھولتے ہیں تو پاکستان پر ہی ہر قسم کی دہشت گردی کاالزام لگاتے ہیں جیسے پاکستان ہی دہشت گردوں کا سرپرست ملک ہو۔ 40 ہزار انسانوں کی جانی و مالی قربانیوں کے باوجود ہر جگہ پاکستانی حکمرانوں کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی حکمرانوںکو میرا یہ مشورہ ہے کہ افغانستان کی فکر چھوڑ کر اپنے ملک کی فکر کرو۔ پانچ ہزار سے زائد فوجی اور سیکورٹی اہلکار اس امریکی جنگ کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرچکے ہیں 70 ارب ڈالر سے زائد مالی نقصان برداشت کیا جا چکا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں نہ تو پاک بھارت جنگوں میں فوجی شہید ہوئے تھے اور نہ ہی اتنا بڑا مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اسکے باوجود پاکستان آرمی دشمن کیخلاف نامساعد حالات اور سخت ترین موسمی صعوبتوں کے باوجود قبائلی علاقوں میں اب بھی برسرپیکار ہیں لیکن ان حالات نے جہاں امریکی اور اتحادی فوجیوں کو تمام تر اسلحی برتری کے باوجود نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا نٹ ورک اس قدر مضبوط ہوچکا ہے کہ وہ جہاں چاہتے ہیں اور جب چاہتے ہیں کامیابی سے حملہ کرتے ہیں۔ سیکرٹری دفاع آصف یاسین کیمطابق گزشتہ چار سالوں میں انتہائی حساس ترین دفاعی تنصیبات پر دہشت گردوں کے 16حملے ہو چکے ہیں جس میں جی ایچ کیو‘ کراچی میں بحریہ کے ہوائی اڈے پر کھڑے ہوئے 3 ارب ڈالر مالیت کے اورین طیارے ، کامرہ میں 25 ارب روپے قیمت کا اواکس طیارہ بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے یہ بات سوچنے کی ہے کہ حساس ادارے کی تنصیبات‘ دفاتراور یونٹس دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں تو اس میں دہشت گردوں کا ہی نہیں پاکستان کے دفاع کو کمزور کرنے کی سازش کرنے والوں کا ہاتھ ہے جسے پاکستان میں نٹ ورک پھیلانے اور پاکستانیوں کو خرید کر اپنے مذمذم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے پاکستانی حکمرانوں نے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔ حالات اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ کوئی جگہ یا ادارہ ایسا نہیں جسے رحمان ملک کی زبان میں محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پے در پے ناکامیوں اورجان لیوا حملوں کے باوجود پاکستانی حکمران اس جنگ سے اس لئے تائب نہیں ہوتے کہ وہ خود اور انکے بیوی بچے محفوظ ہیں اور ڈالروں کی بارش ان پر صبح و شام ہوتی ہے لیکن ان ماﺅں کا قصور کیا ہے جن کے بیٹے ان دیکھی موت کا شکار ہوکر قبروں میں مسلسل اتر رہے ہیں۔ پاکستانی علما فتوی جاری کر رہے ہیں کہ خود کش حملے حرام ہیں لیکن کسی نے یہ بھی سوچا ہے کہ دہشت گردوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر چند سو تارکین وطن ناجائز طریقے سے داخل ہو جائیں تو حکومتی ادارے ان کیلئے روزگار کا اس لئے فوری انتظام کرتے ہیں اگر ملازمتیں فراہم نہ کی جا سکیں تو بھوکے پیٹ لوگ جرائم کرنے لگتے ہیں لیکن پاکستان میں ایک جانب دہشت گردی کی جنگ کی بنا پر بم دھماکوں‘ خود کش حملوں اور جرائم پیشہ افراد کی بنا پر ہر روز چوری ڈاکے اور اغوا کی درجنوں وارداتوں کے علاوہ درجنوں انسان بھی لقمہ اجل بن رہے ہیں تو دوسری جانب بے روزگاری کا آسیب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کی عوام کش پالیسیوں کی بنا پر توانائی کے بحران کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاروں کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ہو چکی ہے یہی بے روزگار نوجوان جو کسی بھی ملک کا سرمایہ تصور کئے جاتے ہیں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا ایندھن بن رہے ہیں۔