سیاست کے فرعونوں سے جان چھڑانے کا نسخہ
حصول پاکستان کی تحریک کی بنیادی قوت اسلام تھی۔ اسلام یا نظریہ اسلام کو الگ رکھ کر تحریک پاکستان کا کوئی دوسرا جواز پیش ہی نہیں کیا جا سکتا۔ نظریہ پاکستان کے الفاظ سے ناقابل بیان تکلیف میں مبتلا ہو جانے والا سیکولر طبقہ دراصل اسلام کو ایک نظریہ اور ایک مکمل ضابطہ حیات تسلیم نہیں کرتا۔ دو قومی نظریہ اور مسلم قومیت کو پاکستان کی بنیاد ماننے والے بھی جب اسلام کی بطور نظام زندگی بات کی جائے تو وہ یہ انوکھی منطق پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پاکستان مسلمان قوم کے لئے تو بنایا گیا تھا لیکن اسلام کے لئے پاکستان نہیں بنا تھا۔ کیا مسلمان قوم اور اسلام کو الگ الگ کیا جا سکتا ہے؟ آخر اسلام جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور تحریک پاکستان کے دوران تواتر اور تسلسل سے قائداعظم نے کبھی اسلام کو اور کبھی قرآن کو مکمل ضابطہ زندگی قرار دیا اور قیام پاکستان کے بعد بھی مختلف موقعوں پر اسلام کا اور اسوہ رسول کا قائداعظم تذکرہ فرماتے رہے اور ان کا بار بار یہ کہنا کہ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ تو یہ سب کچھ قائداعظم نے اسلام پر عمل کرنے کے لئے کہا تھا۔ پاکستان کو اگر قائداعظم نے اسلام کے سیاسی غلبہ کے لئے یا قائداعظم کے اپنے الفاظ میں اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے لئے حاصل نہیں کیا تھا تو پھر صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے تو مسلمانوں کو بے پناہ قربانیاں دینے اور لاکھوں کی تعداد میں انڈیا سے ہجرت کرکے اس علاقہ میں بسنے کی کیا ضرورت تھی جہاں پاکستان قائم ہوا تھا۔ نظریہ پاکستان ایک مبہم یا بے معنی تصور نہیں تھا کہ انڈیا کو تقسیم کر دیا جائے اور پاکستان کی صورت میں انڈیا سے الگ ہو کر جو نیا ملک بنایا جائے وہاں بھی انڈیا کی طرح ایک لادینی ریاست قائم کر دی جائے۔ اگر پاکستان بنا کر بھی مسلمانوں نے ہندوﺅں کی طرح انڈیا جیسی ہی ایک سیکولر ریاست قائم کرنی تھی تو پھر مسلمان قوم کو تقسیم کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کروانے کا کیا جواز بنتا تھا۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لئے قربانیاں کسی اعلیٰ اور ارفع نصب العین کے لئے دی تھیں اور وہ نصب العین اسلام کو ایک اجتماعی نظام زندگی کے طور پر اپنانے کا تھا۔ اگر پاکستان میں بھی غیر اسلامی تصورات کا بول بالا رہنا تھا۔ مسلمانوں کی ایک ایسی حکومت تشکیل دینے کے لئے پاکستان بنایا جانا تھا کہ جس حکومت کا قبلہ اسلام نہ ہو۔ جہاں سرمایہ دارانہ نظام یا کبھی سوشلزم کے نام پر ملک کے معاشی نظام کو تباہ کرنا ہو تو پھر کبھی بھی قائداعظم کی قیادت میں مسلمان تحریک پاکستان برپا کرنے کے لئے متحدہ نہ ہوتے۔ قائداعظم جب تک ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے اس وقت تک وہ مسلمانوں کی دل و نگاہ کا مرکز نہیں بنے تھے اور وہ صرف محمد علی جناح تھے۔ لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کو اسلام کے سیاسی غلبہ کے لئے ایک الگ ریاست کے قیام کے لئے پکارا تو وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر قرار پائے۔ مسلمانوں کے لئے اپنی آزاد مملکت میں جو کشش تھی وہ اسلام کی برکات کی وجہ سے تھی۔ مسلمانوں نے جب دنیا بھر میں غلبہ حاصل کیا تھا تو وہ بھی اسلام پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل کرنے کے باعث حاصل کیا تھا۔ اگر ہم پاکستان میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلام پر عمل نہیں کریں گے تو ہمارا وہی حال ہو گا کہ ہم ایک قوم کے بجائے مختلف گروپوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کا خون بہائیں گے جس طرح آج پورا پاکستان ہم نے مقتل میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایک اچھے سے اچھے نظام پر اگر عمل روک دیا جائے تو وہ نظام بیکار ہو جائے گا۔ پاکستان ایک خوبصورت تصور، تخیل اور نظرئیے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا لیکن جب ہم نے اس نظرئیے پر عمل نہیں کیا تو وہ نظریہ ہی شکوک و شہبات کا شکار ہو گیا۔ پاکستان کی اساس اور پاکستان کے نظرئیے کو چیلنج کرنے والے لوگ آج اگر پاکستان کی دھرتی پر ہی موجود ہیں۔ نظریہ پاکستان کا مذاق اڑنے والوں، نظریہ پاکستان کے حوالے سے نوجوان نسل کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے والوں یا نظریہ پاکستان کے اصل خدوخال کو مجروح کرنے والوں کو ایک اچھی خاصی اگر آپ کو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر قابض نظر آتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ نظریہ پاکستان جو دراصل اسلامی نظریہ ہے ہم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جب ہم عملی صورت میں نظریہ پاکستان کو اجاگر نہیں کریں گے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں جب ہم اسلامی آئیڈیالوجی کو اپنے عمل سے الگ کر دیں گے تو پھر نظریہ پاکستان محض الفاظ کا گورکھ دھندا بن جائے گا۔ نظریہ پاکستان کی عملی صورت یہ تھی کہ آج ہم اٹھارہ کروڑ کی ایک متحد قوم ہوتے۔ ہم میں کوئی مہاجر یا سندھی نہ ہوتا۔ بلوچستان میں احساس محرومی نہ ہوتا۔ بلوچستان میں آزادی کی کوئی تحریک نہ ہوتی۔ ہمارے ملک میں فرقوں کی بیناد پر کوئی فساد نہ ہوتا۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی انسانوں کی جان لینے والے درندوں کا مسکن نہ بن جاتا۔ آج جنگل میں تو شاید انسانی زندگی محفوظ ہو لیکن فوج، رینجر اور پولیس کی موجودگی میں بھی کراچی میں ہر دن معصوم اور بے گناہ شہری قتل ہو رہے ہیں۔ 22 ہزار سے بھی زیادہ مفرور قاتلوں، ڈاکوﺅں اور جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرنے کے لئے ملک میں کوئی ادارہ موجود نہیں۔ حکمرانوں کی حفاظت کے لئے تو سکیورٹی ادارے فعال ہیں لیکن مخلوقِ خدا کی جان، مال، آبرو، گھر اور جائیدادیں کچھ بھی محفوظ نہیں۔ یہ سب کچھ اس تصور حیات اور نظرئیے کے خلاف ہے جس کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ قائداعظم پاکستان سے پہلے ایک ”پاکستانی قوم“ اور مسلمانوں کو امت واحد بنانے میں کامیاب رہے۔ آج ہوسِ اقتدار میں بری طرح مبتلا ہمارے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے قائداعظم کی امت واحد کے تصور کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ ہم نے پاکستان کی اساس اسلامی نظرئیے کو فراموش کر دیا ہے۔ ہمارا یہ عمل نظریہ پاکستان کے خلاف ہے اور نظریہ پاکستان سے متصادم عمل کو میں پاکستان کے آئین بلکہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف اقدام سمجھتا ہوں۔ اگر ہمارے حکمرانوں کا نظریہ پاکستان پر پختہ ایمان ہوتا اور ان کے اپنے سیاسی اعمال بھی تصور پاکستان کے مطابق ہوتے تو قائداعظم کے پاکستان کے یہ بگڑے ہوئے حالات نہ ہوتے۔ وہ حالات جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کی تصویر ہی مسخ کر ڈالی ہے۔ اسلام کے لازوال رشتے کے ہوتے ہوئے اگر ہم آج ایک قوم نہیں ہیں تو اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران اور وہ سیاستدان ہیں جو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اقتدار میں اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں نیکی اور سیاست کی اعلیٰ قدریں کیوں کالعدم ہو گئی ہیں؟ سیاست پر کرپشن کے بھوت کیوں قابض ہو چکے ہیں؟ بدی منہ زور کیوں ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس کیوں ہیں؟ پٹواری سے لے کر زرداری تک جس کا جتنا زور ہے وہ ملک کو کیوں لوٹ رہا ہے۔ ہمارے پیارے وطن کو سیاسی لٹیروں نے اتنا لوٹا ہے کہ اب قومی خزانے میں لوٹنے کے لئے بھی شاید کچھ نہیں بچا۔ میرے نزدیک نظریہ پاکستان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو قومی لٹیروں کے وجود سے پاک کر دیا جائے۔ صرف سپریم کورٹ کے چند فیصلوں سے ملک میں کوئی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک قوم نے خود نظریہ پاکستان اور قائداعظم کے تصور سیاست کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے کر ملک میں تبدیلی کا فیصلہ نہ کیا اس وقت تک چند عدالتی فیصلے (جن پر ہمارے حکمران عمل بھی نہیں ہونے دیتے) ہمارے ملک کی تقدیر نہیں بدل سکتے۔ چند افراد کو اقتدار کی کرسی پر بٹھا دینے سے اور پھر اسی طرح کے ایک اور گروہ کو بار بار آزمانے سے اگر ہمارے حالات بدل جانے ہوتے تو پھر ہمارا ملک آج ایک عظیم اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ لیکن ایسے کبھی تبدیلی نہیں آتی۔ ملک میں تبدیلی لانے سے پہلے قوم کو خود تبدیل ہونا ہو گا۔ ہمیں انفرادی طور پر بھی خود کو بدلنا چاہئے اور من حیث القوم بھی اپنے اعمال میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ہمیں بے حسی کے حصار سے خود بھی نکلنا ہو گا۔ اور سیاست کو تجارت بنا دینے والے بدبو دار سیاستدانوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہو گا۔ پاکستان کو آگ لگا کر نیرو کی طرح بانسری بجانے والوں کی گردنوں کو ہمیں ووٹ کی تلوار سے کاٹ دینا چاہئے جنہوں نے پاکستانی قوم کو چلتی پھرتی قبروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اب ان سیاستدانوں کو ہمیں قبرستان کا راستہ دکھا دینا چاہئے۔ سیاستدانوں کی بھڑکائی ہوئی ”آتشِ نمرود“ کو اگر ہم گلستان میں بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر ابراہیمی ایمان پیدا کرنا ہو گا۔ سیاست کے فرعونوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو فوج کی طرف نہ دیکھیں بلکہ قوم عصا اپنے ہاتھ میں لے اور کار کلیمی کا فریضہ ادا کرے۔