پاکستان میں رہا کئے گئے افغان طالبان دوبارہ لڑائی میں شامل ہوگئے: واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن (نمائندہ خصوصی/آن لائن) امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں فروغ امن کی کوشش کے سلسلے میں بطور خیر سگالی جن طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا ان میں سے بعض دوبارہ افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے جا ملے ہیں اور نیٹو و افغان فوج کے خلاف لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔ کابل سے ایک مراسلہ میں واشنگٹن پوسٹ لکھتا ہے کہ پاکستان کے اس اقدام نے یہ سوال پیدا کر دیئے ہیں کہ طالبان قیدیوں کی رہائی نے صورتحال میں بہتری کی بجائے الٹا مغربی فوجوں اور افغان حکومت کیلئے نئے خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ پاکستانی آئی ایس آئی نے نومبر اور دسمبر میں طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا لیکن ان سابق قیدیوں کے ٹھکانوں اور ان کی تعداد کے بارے میں واضح نہیں ہوسکا۔ اخبار کے مطابق امریکی فوج ان سابق طالبان قیدیوں کے ٹھکانے جاننے اور انکے افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے جا ملنے کا پتہ چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آن لائن کے مطابق امریکی میڈیا نے لندن میں افغانستان، پاکستان اور برطانیہ کے سربراہان کے حالیہ اجلاس سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مغربی فوجیں افغانستان سے انخلاءکےلئے طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں۔ اخبار وال سٹریٹ جنرل کا کہنا ہے کہ لندن مذاکرات کا ایک مقصد کرزئی کو یہ یقین دلانا تھا کہ کوئی بھی انہیں امن کے عمل سے علیحدہ نہیں کر رہا۔ افغانستان میں قیام امن کےلئے تینوں سربراہان مملکت نے امن کے معاہدے کےلئے ضروری اقدام کرنے کا فیصلہ کیا۔ لندن مذاکرات کی خاص توجہ قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے پر مرکوز رہی، جسے افغان حکومت کیساتھ امن مذاکرات کےلئے استعمال کیا جا سکے۔ امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ افغان حکومت باربار پاکستان پر بغاوت کیلئے اکسانے کا الزام لگاتی رہی ہے لیکن افغان عہدے دار مصالحت کےلئے پاکستان کے حالیہ اقدامات سے مطمئن ہیں۔افغانستان میں امریکہ کا کیا مشن ہے؟ اِس عنوان سے معروف تجزیہ کار ڈائیل میک مےنس ’ڈلس مارننگ نیوز‘ میں لکھتے ہیں کہ بیشتر امریکی فوجیں مقررہ وقت کے مطابق اگلے سال کے اواخر تک افغانستان سے نکل جائیں گی تو وہاں جنگ ختم نہیں ہوئی ہوگی۔ حقانی کا نیٹ ورک پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ فعال ہوگا۔ امریکی صدر کو جوہری ہتھیار سے لیس پڑوسی ملک پاکستان کے استحکام کی بھی فکر کرنی پڑ رہی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے ابتدا میں تجویز دی تھی کہ 2014ءکے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد 15ہزار ہونی چاہئے تاہم وال سٹریٹ جنرل کے مطابق اوباما اس سے متعلق فیصلہ اگلے چند ہفتوں میں کرینگے۔