بلاول ہاﺅس میں صدر زرداری سیاست کریں گے
یہ وقت بھی آنا تھا کہ وسیم سجاد صدر زرداری کے وکیل ہیں۔ کسی نے پوچھ لیا کہ یہ ”وقت“ وسیم سجاد پہ آیا ہے یا صدر زرداری پر آیا ہے۔ وسیم سجاد کچھ زیادہ وسیم سجاد ہو گئے ہیں۔ میرے دل میں قدر ہے کہ اس نے اپنی پارٹی نہیں چھوڑی جبکہ وقاص اکرم کا لوٹا ہونا میرے لئے دکھ کی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ میرا سٹوڈنٹ ہے؟ یہ کمال بھی وسیم سجاد کا ہے کہ صدر زرداری لاہور ائرپورٹ سے سیدھے بلاول ہاﺅس آئے ہیں۔ بلاول ہاﺅس تو تیار ہو گیا تھا مگر صدر زرداری ابھی نہیںآنا چاہتے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ منظور وٹو ابھی نامنظور نہیں ہوئے۔ مخدوم احمد محمود ابھی خادم نہیں بنا تو خادم پنجاب نمبر دو کب بنے گا؟ عبدالقادر شاہین حیران ہیں وہ مجھے ملنے میرے گھر آئے۔ ان کے ساتھ ایک مخلص جیالا ارشاد بھٹی بھی تھا۔ مجھے اچھا لگا کہ گورنر پنجاب کا ایڈوائزر عبدالقادر شاہین خود اپنا ڈرائیور ہے۔ ان کے ساتھ کوئی گارڈ نہ تھا۔ نہ کوئی خادم ۔ ارشاد بھٹی ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ عبدالقادر شاہین نے بتایا کہ ان کے گورنر پنجاب نے سرکاری گاڑی نہیں لی تو میں اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر کے بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان کا دوست ہوں یہ بھی انہوں نے بتایا کہ بلاول ہاﺅس بم پروف ہے اور اب صدر زرداری کو وسیم سجاد نے یہ بھی اجازت عدالت کی طرف سے خود ہی دے دی ہے کہ وہ بلاول ہاﺅس میں سیاسی معرکہ آرائی کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاست کرنا اور چیز ہے سیاسی معرکہ آرائی اور چیز ہے۔ صدر زرداری پی پی پی پی کے شریک چیئرمین نہیں۔ صرف پی پی پی کے شریک چیئرمین ہیں۔ عدالت کے پوچھنے پر وسیم سجاد نے انکشاف کیا ہے کہ یہ کوئی این جی او بھی نہیں ہے۔ ایک ایسوسی ایشن ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ عدالت کو کچھ پتہ نہیں کہ صدر زرداری کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاسی سبزیوں کی ریڑھی لگائی ہوئی ہے۔ ان کے پاس ہر سیاسی پارٹی کےلئے کچھ نہ کچھ پسندیدہ سبزی ہے۔ وہ ہر مخالف اور موافق کو خوش کرنا جانتے ہیں۔ ناخوش کر کے خوش کرنا ایک آرٹ ہے جو سیاستدانوں میں صرف صدر زرداری کو آتا ہے۔ اکثر اوقات وہ سبزی کے پیسے بھی نہیں لیتے۔ ہر گاہک سے ایک جیسا ”جمہوری“ سلوک کرتے ہیں۔ بدسلوکی بھی حسن سلوک کی طرح کرتے ہیں۔ وہ ایک جیسا سیاسی سودا اپنے حلیف اور حریف کےلئے رکھتے ہیں۔
ہر بار نواز شریف کے ساتھ ایسی سودے بازی انہوں نے کی کہ وہ سمجھے کہ میں جیت گیا ہوں مگر جیت تو صدر زرداری کا سیاسی مقدر ہے۔ نواز شریف سے کہا کہ جنرل مشرف کو نکالنا ہے تو ہمارے ساتھ حکومت میں شامل ہونا پڑے گا۔ نواز شریف کے وزیروں نے اس خوشی میں حلف بھی صدر مشرف سے لے لیا پھر مشرف گیا تو زرداری صاحب خود صدر پاکستان بن گئے۔ نواز شریف نے خوشی خوشی انہیں قبول کر لیا۔ اب لاکھ کہیں کہ میں صدر زرداری کو صدر نہیں مانتا تو کوئی بھی یہ بات نہیں مانتا۔ اس جملے پر غور کریں کہ میں صدر زرداری کو صدر نہیں مانتا۔
اتنے میں صدر زرداری نے نواز شریف سے کہا کہ تیسری بار وزیراعظم نہ بننے کی شرط ختم کرانا ہے تو اٹھارہویں ترمیم منظور کراﺅ اور اس میں اپنی ساری شرطیں رکھ دیں۔ یہ شرط بھی تھی کہ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ ہو گا۔ اس سے ہزارہ کے لوگ ناراض ہو گئے۔ وہ نواز شریف کے دوست تھے۔ ہزارہ صوبہ بنانے کی حمایت بھی نواز شریف کو نہ کرنے دی اب صدر زرداری صوبے کا نام دوبارہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں”ہزارہ پختون خوا“ اس طرح وہ شاید صدر زرداری کے حق میں تو نہ ہوں مگر نواز شریف کے دوبارہ خلاف ہو گئے ہیں۔ مگر اس طرح صدر زرداری بہاولپور جنوبی پنجاب کے ضمن میں بھی ایک کامیاب چال چل چکے ہیں۔ بہاولپور جنوبی پنجاب کو ایک پاکستانی ”بی جے پی“ نوائے وقت نے کہا ہے۔ بہاولپور کے لوگوں کو یقین دلانے کےلئے مخدوم احمد محمود کو گورنر پنجاب لگا دیا ہے۔ مزید یقین کےلئے عبدالقادر شاہین کو گورنر کا ایڈوائزر بنا دیا ہے۔ اب نیا صوبہ بنے یا نہ بنے اس علاقے کے ووٹ، پیپلزپارٹی کو ملیں گے؟ پی پی پی پی کو ملیں یا پی پی پی کو اس طرح صدر زرداری دوبارہ نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو استعمال کرنے کےلئے تیار ہو گئے ہیں۔ وسیم سجاد مشہور وکیل ہیں تو کیا سارے مشہور وکیل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ مشہور وکیل اعتزاز احسن کا ”اعزاز“ بھی یہی ہے مگر اقبالؒ قائداعظمؒ بھی تو وکیل تھے۔ انہوں نے کبھی عدالت میں جھوٹ نہ بولا تھا۔ جج بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ وسیم سجاد کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عطا محمد بندیال نے بار بار مذاق کا نشانہ بنایا۔
وسیم سجاد یہی سمجھتے رہے کہ اصل مذاق پی پی پی پی کے چیئرمین مخدوم امین فہیم کا اڑایا جا رہا ہے۔ راجہ پرویز اشرف، مخدوم صاحب کے سیکرٹری جنرل ہیں اور وہ ان کی کابینہ میں وزیر شذیر ہیں۔ مخدوم امین فہیم بدقسمت سیاستدان ہیں ایک بار انہیں بےنظیر بھٹو نے وزیراعظم نہ بننے دیا۔ اب صدر زرداری نے وعدہ کر کے وزیراعظم نہ بنایا۔ زرداری صاحب کو خطرہ تھا کہ پی پی کی وصیت کو صرف مخدوم امین فہیم ہی چیلنج کر سکتے ہیں چنانچہ یہ بات برملا کہی کہ ہمارے وزیراعظم مخدوم امین فہیم ہیں۔ مخدوم صاحب نشے میں آ گئے بلکہ نشے میں چور چور ہو گئے۔ انہیں خبر نہیں ہے کہ برملا اور برحق میں فرق ہوتا ہے۔ اب اگر زرداری صاحب کہہ دیتے ہیں کہ یہ وصیت بے نظیر بھٹو نے مخدوم صاحب کے سامنے لکھی تھی تو وہ یہ بھی مان لیتے۔ میں حیران ہوں کہ جب انہیں صدر جنرل مشرف نے وزیراعظم بننے کےلئے کہا تو وہ کیوں نہ مانے۔ جنرل صاحب نے صرف کہا تھا اگر حکم دیا ہوتا تو مخدوم صاحب مان بھی جاتے پھر 17 ویں ترمیم کی منظوری کےلئے حضرت مولانا فضل الرحمن کی ضرورت نہ پڑتی اور وہ قائدحزب اختلاف بھی نہ ہوتے جبکہ اپوزیشن میں اکثریت حضرت مخدوم صاحب کے پاس تھی۔ قائد حزب اختلاف کے حوالے سے بھی مخدوم صاحب کے ساتھ وہی ہوا تھا جو قائد ایوان کےلئے ہوا ہے۔ جب مخدوم صاحب نے اپنے مدمقابل وزیراعظم مخدوم گیلانی کے ماتحت بلکہ انڈر وزیر شذیر بننا قبول کر لیا تو میں نے سوچا کہ جو کچھ بھی ان کے ساتھ ہوتا رہاہے ٹھیک بلکہ ٹھیک ٹھاک ہے صدر زرداری نے ان کے ساتھ وہی کیا جو اعتزاز احسن کے ساتھ کیا ہے۔
وہ آج یا کل یعنی آجکل جاتی عمرہ محل میں جائیں گے اور وہاں نواز شریف ان کا استقبال کریں گے۔ آجکل وہ نواز شریف کو اس چکر میں رکھے ہوئے ہیں کہ الیکشن اپنے وقت پر ہونگے۔ ڈاکٹر طاہر قادری کے ساتھ بھی مذاکرات چل رہے ہیں۔ حکومت کی نمائندگی چودھری شجاعت کرتے ہیں کہ جن کی سیاسی بصیرت پر صدر زرداری بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس دوران صدر زرداری کے لوگوں نے ق لیگ سے بھی یہ مفاہمت کر لی ہے کہ ایک دوسرے کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہیں کئے جائیں گے۔ آخری جملہ اس کالم کے لئے یہ ہے کہ وسیم سجاد کا تعلق ق لیگ سے ہے اور انہیں صدر زرداری نے اپنا وکیل کیا ہے وہ یہ بھی عدالت میں کہہ سکتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ زرداری صاحب کا کوئی تعلق ہوتا تو وہ اعتزاز کو وکیل کرتے۔