شرم کی بات ہے‘ سکولوں میں جانور بندھے ہیں : ڈسٹرکٹ ججز 30 روز میں سروے کرائیں : جسٹس افتخار
اسلام آباد (اے پی اے) کتنے سکول کام کر رہے ہیں؟ کتنے گھوسٹ سکول ہیں۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو تیس دن میں سروے کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا ہے کہ شرم کی بات ہے سندھ کے سکولوں میں جانور باندھے گئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سکولوں کی حالت زار سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ عدالت کے سامنے سب سے اہم مقدمہ یہی ہے محکمہ تعلیم کے حکام ملک کے بچوں پر ظلم کر رہے ہیں قوم کے بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، سکولوں کو باڑے بنانے والے افراد کیخلاف سخت ترین کارروائی کریں گے، وڈیرہ اور جاگیردار طبقہ تعلیم کیخلاف ہے، سکولوں پر قبضے ہیں، ہزاروں بھوت سکول چل رہے ہیں جن پر عوام کا اربوں روپے ضائع ہو رہا ہے اگر تعلیم پر بھی سیاسی اثر و رسوخ استعمال کیا جا رہا ہے تو یہ قوم کے ساتھ گھناﺅنا مذاق اور ظلم ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ محکمہ تعلیم کے افسران اپنے ہی سکولوں کی حالت زار سے لاعلم ہیں، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ قوم کو مفلوج کرنے کے لئے ان کے بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کئے گئے ہیں، ہم قوم کے بچوں کے ساتھ ظلم نہیں کرنے دینگے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالتی معاونت کرتے ہوئے کہا کہ ایک ذہنیت ہے جو سماجی شعبہ کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، ملک میں تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات پر اقدامات ضروری ہےں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے سارے کالجز اور سکول کام کر رہے ہیں یہ تصاویر کا مسئلہ نہیں سیکرٹری کس بات کی تنخواہ لیتے ہیں عوام بتا رہے ہیں کہ سکولوں میں جانور بیٹھے ہوئے ہیں۔ سیکرٹری کو اب تک گھر چلے جانا چاہئے تھا یہ ہمارے اور آپ کے لئے بہت شرم کی بات ہے کہ سکولوں میں جانور بیٹھے ہوئے ہیں کیوں ہم سے باتیں چھپائی ہیں جھوٹی رپورٹ عدالتوں میں داخل کرتے ہیں آپ کے خلاف مقدمہ درج کروائیں گے۔ عدالت نے ایڈیشنل سیکرٹری سندھ عارف علی شاہ کو سخت جھاڑ پلا دی ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ سندھ میں وڈیرہ شاہی ہے اور جاگیردارانہ نظام ہے وہ کچھ چلنے نہیں دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گذار نے معلومات دے دیں؟ باقی آپ کا کام ہے سندھ رورل اتھارٹی نے رپورٹ بھجوائی تھی اور کہا تھا کہ بچے باقاعدگی سے سکولوں میں جا رہے ہیں کہ پڑھائی ہورہی ہے تاہم معاملات اس کے برعکس ہیں۔ چیف سکرٹری کو کہیں جنہوں نے جھوٹی رپورٹ دی ہے ان کیخلاف غلط رپورٹ پر مقدمہ درج کروایا جائے اور ان کو گرفتار کیا جائے۔ سکولوں میں جانور نہیں باندھنے دینگے۔ جانوروں کے اصطبل بنائے ہیں جس نے درخواست دی ہے اس نے مہربانی کی ہے ہم نے کہا تھا کہ سب سکولوں کا وزٹ کیا جائے سندھ سکولوں کے حوالے سے صحیح رپورٹ دیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ سکولوں میں فرنیچرز اور دیگر کاغذی کارروائی جاری ہے مگر وہاں کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سکولوں کے اساتذہ کو تنخواہیں کیوں دی جا رہی ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 99 سکولز کب سے بند ہیں اور اساتذہ کرام کو تنخواہیں دی جا رہی ہیں آپ کے ریکارڈ میں اساتذہ تعینات ہیں اور ان کو تنخواہیں دی جا رہی ہیں کیا یہ آپ کا صوبہ نہیں ہے کس سے بات کریں کس سے پوچھیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ یہ تو سندھ کے سپیشل مہمان افسر ہیں انہیں کیا معلوم ہے آپ فائلیں بند کر دیں آپ کا کام نہیں ہے آپ پر خواہ مخواہ میں بوجھ ڈال دیا گیا ہے آپ اس قابل نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان سکولوں کا تو ہمیں پتہ چل گیا ہے نہ جانے اور کتنے سکولز ہیں کہ جن کا پتہ ہی نہیں چل رہا ہے۔ قوم کے بچوں کے ساتھ ظلم کیوں کر رہے ہیں یہ سب بچے آپ کے ہیں، خود گاڑی میں بیٹھ کر آپ کو جانا چاہئے تھا ابھی بھی آپ کے پاس اتھارٹی ہے یہ تو اینٹی کرپشن کا کیس بنتا ہے۔ رپورٹ بھی نامکمل ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ نے کہا کہ مٹیاری کے سکول واگزار کرا لئے گئے ہیں لیکن جواب آپ کا نفی میں ہے کیا آپ یہاں سیر کرنے کیلئے آئے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ چیف سیکرٹری کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے کہ جو خود رپورٹ بھجوا کر آتا نہیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ تعلیم کے معاملے پر حکومت ناکام ہے کیا کریں کس کو سمجھائیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہماری مدد کریں تاکہ قوم کو اندھیرے سے نکالا جائے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ سچ بتاتا کوئی نہیں پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ 418 میں سے 266 ابھی تک قبضے میں ہیں جن کو چھڑانے کی کوشش جا ری ہے۔ ہر ایک سکول کی الگ الگ تفصیل رپورٹ میں دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کے سکول بند کر کے آپ مقدمہ بازیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ قانون موجود ہے آپ زبردستی قبضہ واپس لیں۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ لاہور کے ایک سکول کی اکیس کنال اراضی میں سے نو کینال پر قبضہ ہے آپ کیا جا رہے ہیں سفارشی لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کا یہی تعلیمی نظام ہے تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے اگر تعلیم کا یہ حال ہے تو ملک کی لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال کیسے بہتر کرینگے۔
سپریم کورٹ / سکول کیس