”بھٹوز“ کی سیاست پر بلاول ہاﺅس کا غلبہ
لاہور کے علاقے رائیونڈ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پربحریہ ٹاﺅن کے سیکٹر ای میں 200 کنال رقبے پر محیط 10 ماہ کی مختصر ریکارڈ مدت میں تعمیر ہونے والا محل ”بلاول ہاﺅس“ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ بلاول کو یہ نیا گھر مبارک ہو۔ خداوند قدوس محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے بچوں کی حفاظت فرمائے اور ان کو ہر بلا سے محفوظ رکھے۔ (آمین)
پاکستان کی سیاست نہ تو پھولوں کی سیج ہے اور نہ ہی اتنا آسان کھیل۔ پاکستانی سیاست جوکہ نام ہی کاروبار، لوٹ مار اور حکمرانی کا ہے، اس کھیل میں جگہ جگہ کانٹے اور خاردار جھاڑیاں بھی ہیں لیکن پھر بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنے نوجوان بچوں کو سیاست کے اس میدان میںلا کر موروثیت کو فروغ دیا ہے، جس سے اب آہستہ آہستہ پاکستانی سیاست بادشاہت کی جانب جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر سیاستدان، ہر حکمران اپنے جگر گوشوں کو سیاست کے میدان میں لانے کا خواہشمند ہے۔ آج کوئی بھی ایسا سیاسی خاندان نہیں، جس کے بچے سیاست کے میدان میں نہ ہوں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان خاندان کے لوگ مختلف سیاسی پارٹیوں میں نظریہ ضرورت اور وقت کے تحت ہر جگہ فٹ بھی ہو جاتے ہیں اور پھر اقتدار کے ایوانوںمیں اپنی موجودگی کو یقینی بھی بنا لیتے ہیں ۔ ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے انتخابات کا عمل محض ایک رسمی کارروائی کی صورت اختیار کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عوام سے جیسے تیسے ووٹ تولے ہی لئے جاتے ہیں، دلفریب نعرے اور سبزباغ دکھا کر ووٹ حاصل کرنے کا فن اب آرٹ بن چکا ہے۔ ہر سیاستدان اس آرٹ میں ہر فن مولا ہے۔
لاہور کا بلاول ہاﺅس نہ تو 70 کلفٹن، نہ ہی المرتضیٰ لاڑکانہ اور نہ ہی سرے محل لندن ہے، یہ زندہ دلان لاہور کی سرزمین پر واقع ہے۔ اس شہر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد اسی شہر میں 30 نومبر 1967ءکو ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش گاہ واقع مین بلیوارڈ گلبرگ کے سبزہ زار میں ہونے والے اجلاس میں رکھی تھی۔ اس سے پیشتر 2 روزہ کنونشن بھی منعقد ہوا تھا، جس میں انقلابی شاعر حبیب جالب مرحوم اور اسلم گورداسپوری نے اپنا انقلابی کلام بھی سنایا تھا۔ اس موقع پر 2 نوجوانوں چودھری محمد علی اور میاں محمد اسلم نے 100، 100 روپے کا ایک ایک نوٹ اس کنونشن کے انتظامی اخراجات کیلئے پیش کیا۔ کنونشن میں شیخ رشید پیپلزپارٹی پنجاب کے چیئرمین اور ملک غلام مصطفی کھر سیکرٹری جنرل پیپلزپارٹی، صوبہ سندھ کے چیئرمین میر رسول بخش تالپور، صوبہ سرحد کے چیئرمین حیات محمد خان شیرپاﺅ اور پیپلزپارٹی بلوچستان کے چیئرمین امان اللہ کچکی منتخب ہوئے جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو منتخب ہوئے اور سیکرٹری جنرل جے اے رحیم بنائے گئے۔ پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو میں شیخ رشید، بیگم آباد احمد، ڈاکٹر مبشر حسن، محمد حنیف رامے، خورشید حسن میر، امان اللہ کچکی، حق نواز گنڈا پور، حیات محمد خان شیرپاﺅ اور میر رسول بخش تالپور شامل تھے۔
ابتدائی دور میں پیپلزپارٹی کا دفتر 4 مزنگ روڈ لاہور میں تھا، جس کا کرایہ 200 روپے ماہوار تھا جوکہ پارٹی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو خود اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلزپارٹی لاہور کے چیئرمین اور وہ پارٹی کے فنانس سیکرٹری بھی تھے۔ یہ ہے وہ مختصر سی تاریخ پیپلزپارٹی کی، جس کے چیئرمین اب بلاول بھٹو زرداری ہیں۔
آج پارٹی میں نہ کوئی ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید ،میر رسول بخش تالپور، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفی کھر، طالب المولیٰ، معراج محمد خان، ملک حامد سرفراز، اسلم حیات، خورشید حسن میر، حنیف رامے، کوثرنیازی، جے اے رحیم، حیات محمد خان شیرپاﺅ، معراج خالد، مختار رانا اور ڈاکٹر غلام حسین جیسی قدآور شخصیت موجود ہے، بس بیچارے جیالے ہیں یا نظریاتی کارکن، باقی رہے پارٹی رہنماتو وہ سارے کے سارے زرداری کے درباری اور حکمران اور وی وی آئی پی کہلوانے والے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی زندگی تک پارٹی میں بھٹوز کی طلسماتی کشش اور نوجوانوں میں گرم خون موجود تھا لیکن اب حال یہ ہے کہ نہ روٹی، نہ کپڑا ، نہ مکان! .... اور اب بجلی، پانی، گیس اور روزگار بھی ختم ہوچکا ہے، گھروں کے چولہے اور کارخانوں کی چمنیاں ٹھنڈی ہوچکی ہیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولت اب صرف مراعات یافتہ طبقے کی حد تک موجود ہے۔ یہ ہے اصل حقیقت آج کی پاکستانی پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کی....
بلاول کو پنجاب میں بلاول ہاﺅس مبارک ہو جوکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی رہائش گاہ ”جاتی عمرہ“ کے قریب ہے۔ بلاول ہاﺅس کی تعمیر پر تقریباً 6 ارب روپے لاگت آئی ہے جو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی تصویر کے سائے تلے بلاول بھٹو زرداری کو میدان سیاست میں اتارنے کی پہلی عملی کوشش کا نمونہ ہے چونکہ میں خود بھی پاکستان پیپلزپارٹی کی تحریک کے بیج بونے میں عملی طور پر شریک رہا ہوں، جس میں میرا اپنا خون پسینہ اور میری والدہ محترمہ مرحومہ کی بھٹو کیلئے ڈھیر ساری دعائیں بھی شامل ہیں اور میری آنکھوں نے اس بیج کے پودے بنتے، اس کی کونپلیں پھوٹتے اور پھر اس کے تن آور درخت بننے کے ایک ایک نظارے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ فیصل آباد میں میرے آبائی شہر کی پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیادی اور بانی قیادت میں میرا بھی نام رہا ہے اور مختار رانا جوکہ اب لندن میں سیاست سے کنارہ کش ہو کر خاموشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان سے اکثر مل کر پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔
اب جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کا تن آور پیڑ دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ اس کا پھل اس کے بیج بونے والوں تک پہنچ ہی نہ سکا، اس کا سارا پھل کھانے والوں کا گروہ ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قاتل خود اس مافیا کی صفوں میں موجود ہیں جوکہ ان دونوں کے طفیل اقتدار کے ایوانوں میں ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں۔ یہ مافیا روٹی، کپڑا اور مکان تو کیا دے گا، یہ بجلی، پانی اور گیس کے علاوہ روزگار بھی لے گیا۔ کیا خوب قدرت کا نظام ہے کہ آج وزیراعظم وہ ہیں جو پورے ملک میں اندھیروں کے ذمہ دار ہیں، ان سے روشنی کی کیا توقع ہے؟ نوجوانوں کے مستقبل تک تاریک ہوچکے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے نہ پاکستان میں اور نہ کبھی لندن میں کوئی محل تعمیر کروایا تھا، وہ عالم اسلام کا باکمال لیڈر اور تیسری دنیا کا ترجمان جانا جاتا تھا۔ عربوں کو تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کا ہنر بھی سیکھا گیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنا گیا۔ امریکی دشمنی مول لیکر پھانسی کے پھندے تک جا پہنچا اور کبھی اپنے اُصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا۔ ہمیشہ پاکستان کا نام روشن کیا، اصول سفارت میں برابری کی بنیاد پر سفارتکاری کی مثالیں قائم کیں۔
صرف بلاول بھٹو زرداری کی اطلاع کیلئے مبشر حسن اس کنونشن سے پہلے مجید نظامی سے تعارفی رقعہ یا خط لیکر بھٹو صاحب سے ملا تھا پھر کنونشن ہوا پھر ڈاکٹر صاحب سیکرٹری پاکستان پیپلزپارٹی بنے اور پھر وزیر خزانہ بھی۔ دیکھیں لوگ کس طرح بلے لوٹتے ہیں، بلے کا مطبل ابا جانی سے پوچھ لیں کیونکہ وہ بھی 5 سال سے بلے لوٹ رہے ہیں!
سردار سورن سنگھ اور لال بہادر شاستری سے لیکر اندرا گاندھی اور پھر ہنری کسنجر تک سے اپنی سیاسی اور سفارتی مہارت کا لوہا منوایا اور مذاکرات کی میز پر ان کو زیر کیا اور وہ ہر اس گھر میں موجود ہوتا تھا کہ جس کی چھت ٹپکتی تھی لیکن آج پاکستان پیپلزپارٹی کا چیئرمین بلاول ہاﺅس جوکہ پرانے بادشاہوں کے قلعوں جیسے محلات کی مانند ہے، وہاں مقیم ہے، جہاں ان کے درودیواروں کے اندر ”بھٹوز“ پر زرداری حاوی ہو چکا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی میں اب بھی یہ کہا جائے کہ ”بھٹوز“ موجود ہیں، یہ سراسر حقائق کے منافی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جوکہ پاکستان پیپلزپارٹی میں موجود مافیا ماننے کو تیار نہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے لئے محل کبھی نہ بنوائے بلکہ کچی بستیوں کو پکا کرکے ان کے مکینوں کو اس کے مالکانہ حقوق دلوائے، یہ تھی بھٹوز کی سیاست جو آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
٭............٭............٭