• news

طاہرالقادری کے الفاظ سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں: آئینی ماہرین


لاہور+ اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) آئینی ماہرین نے الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے لئے دائر ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست خارج کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی کیس کا سامنا کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے عدالت میں ایسے الفاظ ادا کئے جو سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ عدالت کے پاس ہر طرح کا سوال پوچھنے کا اختیار ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عدالت کے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے عدالت کے بارے میں نامناسب الفاظ ادا کرنے شروع کر دیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 2005ءمیں جو حلف اٹھایا وہ پی سی او کے تحت نہیں تھا۔ اس وقت آئین بحال ہو چکا تھا۔ انہوں نے دستور پاکستان کے مطابق ہی حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف توہین عدالت کا کیس بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رٹ پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے اثرات آئندہ بھی مرتب ہوں گے۔ فاضل عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے ایک تو اس بات کا تعین کر دیا کہ منقسم وفاداری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ دوسرا اس نکتے کا تعین کر دیا کہ عدالتوں میں ٹھیک نیت سے نہ آنے والا حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکتا۔ عدالتی فیصلہ ہمیشہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے راستے میں حائل رہے گا۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاءکو سامنے آنا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو درخواست دائر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کسی بھی کیس میں موکل، وکیل اور ججز کو پرسنل نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی عدالت میں کسی قسم کی بدتمیزی ہونی چاہئے۔ طاہرالقادری کی ایک ہی کیس میں چیخیں نکل گئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ دوہری شہریت کے حامل شہریوں کی نیت پر شک نہیں لیکن درخواست کا خارج ہونا درست ہے۔ لوگ آئین کے آرٹیکل 184/3کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ عدالت میں طاہرالقادری کا رویہ جذباتی اور لڑائی والا تھا۔ ان کا انداز درست نہ تھا۔ انہوں نے بہت زیادہ توہین کی تاہم عدالت کو اہم سرکاری عہدیداروں کو بار بار طلب کر کے ان کی سبکی نہیں کرنی چاہئے۔ حلف لینے کے حوالے سے مشرف کی نسبت ملکہ الزبتھ بہتر ہے۔ عام آدمی کو طاہرالقادری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے کہا کہ دوہری شہریت رکھنے والے کی جانب سے یہ درخواست بنتی ہی نہیں تھی۔ ایڈووکیٹ اکرام چودھری نے کہا کہ پلان کے تحت عدلیہ کا تمسخر اڑانے کے لئے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تصاویر عدالت میں دکھائی گئیں۔ بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے احترام کے ساتھ انہیں سنا۔ طاہرالقادری کو بھی عدالت کا احترام رکھنا چاہئے تھا۔ وہ مخصوص ایجنڈا لے کر آئے جو پورا نہ ہو سکا۔ اکرام چودھری نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پریس کانفرنس ملک ریاض کی پریس کانفرنس سے مختلف نہیں تھی۔ دونوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ طاہرالقادری کے خلاف دو ایف آئی آرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔ 1996ءمیں تشکیل کر دہ کمشن نے انہیں ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 184-3کے تحت کوئی کیس سننے یا نہ سننے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ اگر کسی کا کوئی حق مجروح ہوا ہو تو وہ ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف سے ججز کے حلف کو 17ویں ترمیم میں ریگولرائز کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سابقہ اقدامات کی توثیق کر دے۔
آئینی ماہرین

ای پیپر-دی نیشن